اے خیر کے طالب آگے بڑھ ...

April 18, 2021

روبینہ فرید، کراچی

اللہ ربّ العالمین کا شُکر ہے کہ اس نے ہمیں ایک بار پھر وہ مہینہ عطا کیا، جس کی ہر ہر گھڑی میں ہمارے لیے خیر و برکت پوشیدہ ہے۔ اس کی ہر ساعت اتنی قیمتی ہے کہ ان سے مکمل فیض یاب ہونے کی خاطر پیارے نبی کریمﷺ نے اُمّت کوماہِ شعبان ہی میں رمضان کی فضیلت سے آگاہ کر دیا، تاکہ اُمّت استقبال کے لیے پوری طرح تیار ہو کر اس کی اوّلین ساعتوں ہی سے رحمتیں، برکتیں جھولیوں میں سمیٹ سکے۔

آپ ﷺ نے فرمایا،’’لوگو! تم پر ایک ایسا عظیم الشّان مہینہ طلوع ہونے والا ہے، جس کا ابتدائی حصّہ رحمت، درمیانی حصّہ مغفرت اور آخری حصّہ دوزخ سے رہائی ہے۔جو شخص اس مہینے میں کوئی نفل عبادت کرے گا، اسے فرض کے برابر ثواب ملے گا اور جو کوئی فرض عبادت کرے گا ،اسے ستّر فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔

یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔‘‘ ایک اور حدیثِ مبارکہﷺ میں ارشاد ہوتا ہے،’’جس نے ماہِ رمضان میں ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔‘‘ ان کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں، جو ہمیں روزہ داروں سے متعلق خوش خبری سُناتی ہیں، لیکن یہاں ہمیں یہ بات سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہر شے کی خُوبی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کو کس حد تک پورا کر رہی ہے۔ ہمیں اپنے روزوں کا معیار بھی قرآن میں روزوں کے بتائے گئے مقاصد کی روشنی میں پرکھنا ہو گا کہ آیا ہمارے روزے ان مقاصد کو پورا کر رہے ہیں؟

سورئہ بقرہ میں جہاں روزوں کی فرضیت کا حکم آیا ہے، وہاں ان کے تین مقاصد بتائے گئے ہیں،’’لعلکم تتّقون، لعلکم تشکرون اورلتکبرواللہ ما ھداکم‘‘۔روزے اس لیے فرض کیے گئے کہ ہم متّقی ،شُکر گزاراور اللہ کی کبریائی کا اعلان کرنے والے بن جائیں۔ ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھنے کا حکم اسی لیے دیاگیا کہ بندہ اس شعور کے ساتھ روزہ رکھے کہ مجھے یہ مقاصد حاصل کرنے ہیں۔

روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی ہر اُس چیز سے رُکے، جس سے اللہ نے روکا ہے اور ہر اس چیز کی طرف لپکے، جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اجر کی توقع محض اللہ ہی سے رکھے ۔اگریہ روح بندے میں پیدا نہ ہو، تو اس کا روزہ بے جان ہے، کیوں کہ جس شے میں سے روح نکل جاتی ہے، وہ بے جان ہوجاتی ہے۔

اسی بات کی طرف اللہ کے نبیﷺ نے ہمیں یہ کہہ کر متوّجہ کیا ہے کہ ’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے اُن کے پلّے بھوک، پیاس کے سوا کچھ نہیں پڑتا اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں کہ جنہیں اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ’’جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا، تو اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ یہ احادیثِ نبویﷺ ہمیں اس امر پر متوجہ کرتی ہیں کہ ہم ماہِ رمضان میں کسان کی طرح محنت کریں گے، تو اچھی فصل تیار ہوگی اور اس کا پھل جنّت کی شکل میں ملے گا۔ اگر غافل کسان کی طرح سوئے رہے، تو رمضان کی ساری خیر و برکت کی بارش اس طرح بہہ جائے گی، جیسے چکنے پتّھر سے پانی بہہ جاتا ہے۔

رمضان المبارک میں روزے رکھنا وہ عظیم الشان عبادت ہے، جسے اللہ ہر اس اُمّت پر فرض کرتا رہا ہے، جسے اُس نے دُنیا کی امامت کا فرض سونپا۔ دُنیا کی امامت اللہ کے نزدیک ایسی قیمتی ذمّے داری ہے، جس کے لیے ہر سال روزوں کی سخت تربیت سے گزرنا ضرور ی ہے۔سردی، گرمی، خزاں، بہار ہر موسم میں پوری اُمّت کو ایک ساتھ کئی کئی گھنٹے خواہشاتِ نفس، کھانے پینے ، آرام کرنے اور دیگر معاملات سے رُکنے کی مشق کروائی جاتی ہے، تاکہ انسان اپنے نفس کی باگیں اپنے ہاتھ میں لے سکے، نہ کہ نفسانی خواہشات اسے اپنے پیچھے پیچھے دوڑائے رکھیں۔

مومن وضو کرتا ہے، لیکن سخت گرمی میں بھی کلّی کا پانی حلق سے نیچے نہیں اُتارتا کہ روز ہ ٹوٹ جائے گا۔ سحری کے وقت اپنی میٹھی نیند قربان کر کے اُٹھتا ہے،پھرکچھ کھا پی کر نماز پڑھتا ہے۔اس کے بعد مغرب کی اذان تک کچھ بھی کھاتا پیتا نہیں۔ رات کو جب آرام کی شدید خواہش ہوتی ہے، معمول سے زیادہ طویل نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے۔ ایک ماہ تک اپنی خواہشات کی قربانی دے کر عام دِنوں میں جائز کام بھی اللہ کی خاطر چھوڑ دیتا ہے ۔یہ مشق اگر پورے شعور کے ساتھ ہو تو انسان کے ایمان میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ’’اللہ دیکھ رہا ہے اور حساب لے گا‘‘اس بات کا یقین انسان کو خدا کے احکامات کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کے لیے تیار کرتا ہے۔ اسی اعتقاد کے زور سے وہ حلال و حرام کی ان حدود کا لحاظ رکھنے پر آمادہ ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے زندگی کے معاملات میں قائم کی ہیں۔

یہی امر اسے خواہشات کی بندگی، ناجائز منفعتوں، لذّتوں کے لالچ اور بداخلاقی اختیار کرنے سے روکتا ہے۔ اِس عقیدے میں یہ طاقت ہے کہ آدمی کو عدل و صداقت، حق شناسی و حق پرستی اور بُلند اخلاق کی صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور اسے دُنیا کی اصلاح کے اس کٹھن کام پر اُٹھنے کے لیے آمادہ کرے، جس کی دشواریوں کا تصوّر بھی کوئی غیر مومن انسان نہیں کر سکتا۔ پیارے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے،’’الصوم الجنتہ‘‘، یعنی روزہ ڈھال ہے۔جب گناہ کا موقع سامنے آئے، تو روزے کی ڈھال سامنے کر دی جائے ۔مَیں کسی سے لڑائی کیسے کر سکتا ہوں‘‘،’’ ناجائز منافع خوری کیسے کر سکتا ہوں، لوگوں پر غصّہ کیسے نکال سکتا ہوں،کام چوری کی عادت کیسے اپنا سکتا ہوں، لا یعنی گفتگو اور کاموں میں وقت کیسے گزار سکتا ہوں، رزق حرام کیسے کھا سکتا ہوں؟ کہ میرا تو روزہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر اُمّتِ مسلّمہ پورے شعور کے ساتھ اس عبادت کو انجام دے تو اس کی تقدیر ہی بدل جائے۔دینِ اسلام انسان کی پوری زندگی کو نماز، روزے اور زکوٰۃ کے ذریعے عبادت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے اور عبادت دُنیا کو چھوڑ کر کونے میں جا بیٹھنا نہیں، بلکہ دُنیا کے دھندوں میں پھنس کر اور دُنیاوی زندگی کی ساری ذمّے داریاں سنبھال کر اللہ کے قانون کی پابندی کرنے کا نام ہے۔ اصل ذکرِ الہٰی یہی ہے کہ جو باتیں ربّ سے غافل کر دینے والی ہیں، ان میں پھنس کر بھی مومن اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ’’اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو کسی اور مقصد کے لیے پیدا نہیں کیا ،سوائے اس کے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘

اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ انسان کی کُل زندگی عبادت سے عبارت ہو۔جوکام اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کیا جائے، وہی عبادت ہے ۔اسلام کُل زندگی کا دین ہے ،جس کے اُصول و ضوابط دین و دُنیا دونوں پر محیط ہیں ۔اس کے نزدیک رزق حلال کمانے کے لیے جدو جہد،نکاح ، اہل و عیال پر خرچ، بچّوں کی تربیت، والدین کی خدمت اور زندگی گزارتے ہوئے اللہ کی دی ہوئی شریعت کی پیروی کرنا بھی عبادت ہے ۔روزہ ہمیں اسی بڑی عبادت کے لیے تیار کرتا ہے۔

ہر رمضان کو اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھتے ہوئے بہترین طریقے سے گزارنے کی منصوبہ بندی کریں۔سب انسان خطا کار ہیں ، سب میں کوئی نہ کوئی کم زوری موجود ہوتی ہے۔بہتر ہو گا کہ ہم اپنے کرنے والے کاموں کی فہرست بنا لیں، جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ہی کا خیال رکھا گیا ہو۔ کم از کم تین اخلاقی خُوبیاں اور کم زوریاں خود سے دُور کرنے کا عزم کریں۔ زندگی کے ہر عمل اور معاملے کو قران و سنّت کی روشنی میں پرکھیں کہ آیا وہ معیار، مطلوب کے مطابق ہے یا نہیں؟

اللہ سے خیر کی دُعا مانگیں کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی سب سے قیمتی شے ہے، جو بے طلب انبیاء کے گھر والوں کو نہیں ملی، تو ہمیں کیسے مل سکتی ہے؟ اس رمضان میں اللہ سے ایمان، بندگی اور محبّت کا ایسا تعلق قائم کر لیں کہ ہر فنا ہونے والے شے سے منہ موڑ کر اپنا رُخ، اپنی سمتِ زندگی اور بھاگ دوڑ کا ہدف محض اُس ذات کو بنالیں، جس کا فیضان ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اپنی زندگی کا لنگر اسی احد و صمد کی چٹان پر ڈال دیں، جو ہماری ہر حاجت پوری کر سکتا ہے۔

تقویٰ کا مقام دِل ہے اور ہمیں اس ماہِ صیام میں اس دِل کی صفائی کرنی ہے۔ دِل میں اللہ سے ملاقات کی یاد بسائیں گے، تو تقویٰ کے منافی خیالات خود ہی جگہ خالی کر دیں گے۔ظلمت اور نور کے تقابل میں نور حاوی ہوگا، تو ظلمت خود ہی کافور ہو جائے گی۔دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رمضان ہمارے دامن کو اپنی خیر و برکت سے بھر دے (آمین)۔