جوان بچیوں کو مفلوج دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے

April 18, 2021

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

بات چیت:مراد خان، اسلام آباد

عکّاسی: سیدارشد

سُکھ شانتی، خوشیوں، مسرتوں کے ساتھ مشکلات، مسائل، مجبوریاں، بیماریاں، تکالیف اور پریشانیاں بھی زندگی کا حصّہ ہیں ۔ کچھ تکالیف جسمانی ہوتی ہیں اورکچھ ذہنی، لیکن اگر ذہنی و جسمانی پریشانیاں ایک ساتھ وارد ہوجائیں تو زندگی اذّیت ناک ہو جاتی ہے، خاص طور پران لوگوں کے لیے، جن کے پاس علاج معالجے کی سہولت ہوتی ہے،نہ وسائل ۔ رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان کچھ ایسی ہی سخت مشکلات ، آزمائشوںاور مسائل میں گِھرا ہےہوا ہے۔

امانت علی اور ان کی بیوی، کشوربی بی تقریباً25سا ل سے گھروں میں کام کاج کے سلسلے میںراول پنڈی کے ایک کرائے کے مکان میںرہائش پذیر ہیں۔ امانت علی اور کشور آپس میں کزنز ہیں اور ان کے سات بچّے( پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے)ہیں ۔ایک بیٹے اور بیٹی کی شادی ہو چُکی ہے،جب کہ چار بیٹیاں، عطیہ بتول ، کلثوم، شائلہ اور انیلا ایک لاعلاج جینیاتی بیماری میں مبتلا ہیں۔ امانت علی اور کشورکا کہنا ہے کہ ’’آج تک ڈاکٹرز بھی ان کی بیماری تشخیص نہیں کر سکے۔ ہماری بچیاں جسمانی طور پر مفلوج ہیں،خود چل پھر سکتی ہیں، بیٹھ سکتی ہیں اور نہ ہی کروٹ بدل سکتی ہیں۔ ‘‘

سب سے بڑی بیٹی، 30 سالہ عطیہ بتول کے بارے میں امانت نے بتایا کہ ’’بارہ تیرہ سال تک یہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھی ، پھر ایک دن اس کو کا بخار ہوا تو ہم ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ جب ڈاکٹر نے چیک اَپ کیا تو بتایا کہ’’ اسے بخارنہیں، کوئی جینیاتی بیماری ہے‘‘، لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیا بیماری ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا کہ’’ خاندان میں شادیوں کے نتیجے میں اولاد میں اس طرح کی بیماری ہو سکتی ہے۔‘‘ہم وسائل نہ ہونے کے باوجود جیسے تیسے بیٹی کا علاج کرواتے رہے،مگر جب وہ دوا استعمال کرتی تو اسے زیادہ تکلیف ہوتی تھی۔ علاج چھوڑ دیتے تو پھر کچھ بہتر ہوجاتی۔ وقت گزرتا گیا اور رفتہ رفتہ اس کے پورے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا۔‘‘

کشور بی بی نے بتایا کہ ’’عطیہ بتول جب پیدا ہوئی ، تواس وقت بھی اس کی ٹانگیں نارمل نہیں تھیں، لیکن بڑے ہونے کے ساتھ اس نےچلنا پھرنا شروع کردیاتھا، مگر بخار کے بعد نہ جانے اسے کیا ہوگیا اور اب تو بالکل مفلوج ہو چُکی ہے۔ ‘‘ اپنی بچّیوں کی طرف دیکھتے ہوئے دونوں میاں بیوی نے انتہائی رنج سےبتایا کہ ’’جس روز سے ہمیں پتا چلا ہے کہ یہ اب کبھی چل پھر نہیں سکتیں ،ہمارا دل ہر روز خون کے آنسو روتا ہے ۔‘‘کشور بی بی نے مزید بتایا کہ ’’میری ایک بہن ہے،اس کی شادی بھی ہمارے کزن سے ہوئی ہے، ان کے چار بچّے ہیں، جو اسی طرح کی بیماری میں مبتلا ہیں۔

ہم بہت غریب لوگ ہیں، ہم نےحکومت اور صاحبِ ثروت افراد سے بہت مدد مانگی ، درخواستیں بھی دیں، لیکن کوئی مدد کو نہیں آیااورغیروں سے کیا گِلہ کریں کہ ہمارا اپنا بڑا بیٹا شادی کے بعد چھوڑکر چلا گیا۔ ہم نے اس کے بھی بڑے ترلے کیے کہ ہمیں چھوڑ کر نہ جا،تیری معذور بہنوں کا کیا ہوگا، توکہتا ہے،’’آپ نےپیدا کی ہیں ،آپ ہی سنبھالیں ، یہ میری ذمّے داری نہیں۔‘‘ہماری گزر بسرلوگوںکے گھروں میں کام کاج کر کے ہوتی ہے۔ ماہانہ آمدنی کُل 25ہزار روپے ہے، جس میں سے 10ہزار تو کرائے کی مَد میں چلے جاتے ہیں، پھر بچیوں کے علاج معالجے کا خرچہ الگ۔ مَیں اور میرا شوہر سار ا سارادن گھر سے باہر رہتے ہیں، تاکہ با عزّت روزگار کما سکیں۔

مَیں کس دل سے اپنی بیمار، جوان بچیوں کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر جاتی ہوں، یہ میرا ہی دل جانتا ہے۔ میرا چھوٹا بیٹا، وہ بھی ایک گھر میں کام کرتا ہے، وقفے وقفےسے اپنی بہنوں کو دیکھنے، ان کا خیال رکھنے گھر چلا جاتا ہےکہ یہ بے چاریاں خود سے حرکت تک نہیں کر سکتیں۔کھانا بھی ہم ہی کھلاتے ہیں۔یہاں تک کہ رات کے وقت اگر ان میں سے کسی کو کروٹ بدلنی ، پانی پینا یاواش روم جانا ہو، تو یہ ہم میں سے ہی کسی کو جگاتی ہیں۔‘‘ تعلیم سے متعلق سوال پر امانت علی نے بتایا کہ ’’جو بچیاں معذور ہیں وہ تو ویسے بھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، لیکن باقی تین بچّے بھی ان پڑھ ہیں کہ ہماری اتنی استطاعت ہی نہیں کہ انہیں پڑھا سکیں۔

کون سا باپ چاہے گا کہ اس کی اولاد اَن پڑھ رہے، لیکن ہم جیسے غربت کے مارے والدین اپنے بچّوں کو دو وقت کی روٹی ہی کھلا لیں تو بڑی بات ہے، مگر ہم نے اپنے تمام بچّوں کو دینی تعلیم ضروردلوائی اور معذور بچیاں بھی دن بھر تلاوت کرتی رہتی ہیںاور نمازوں کی پابند ہیں۔‘‘ کشور بی بی نے روتے ہوئےکہا ’’مَیں ہر وقت بس یہی سوچتی رہتی ہوں کہ ہمارے مرنے کے بعد ان بچیوں کا کیا ہوگا؟دلی خواہش ہے کہ کوئی ان کی ذمّے داری قبول کرلےیا ان سے شادی کرلے۔‘‘

ہم نے امانت علی کی سب سے بڑی بیٹی، عطیہ بتول سے بھی بات چیت کی۔ وہی سب سے پہلےاس بیماری کا شکار ہوئی تھی۔ بلند حوصلہ عطیہ کا کہنا ہے کہ ’’ مَیں اٹھارہ سال سے بیمار ہوں۔ پہلے مَیں بالکل ٹھیک تھی،پھرایک دن مجھے بخار ہوااور ڈاکٹر نے بتایا کہ مَیں کسی خطر ناک بیماری میں مبتلا ہوگئی ہوں۔ اس کے بعد ایک دن مَیں بیٹھی تھی تو جب اُٹھنے کی کوشش کی تو اچانک ہی ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ جب احساس ہوا کہ مَیں اب کبھی چل پھر نہیں سکوں گی تو ،جو تکلیف مَیں نے محسوس کی، وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

ذرا سوچیں کہ ایک انسان ،خاص طور پر لڑکی کے لیے یہ حقیقت کتنی کرب ناک ہوگی کہ اس کی بقیہ زندگی محتاجی ، معذوری میں بسر ہوگی اور معذوری بھی ایسی کہ نہ خود ہِل جُل سکے، نہ واش روم جا سکے۔ لیکن وقت سب سے اچھا مرہم ہوتا ہے، تو مَیں نے بھی وقت اور حالات سے سمجھوتا کرکے اس زندگی کو اپنا لیا ہے۔ اللہ کی رضا میں راضی ہوں کہ دنیا میں ہم سے بھی زیادہ مجبور اور بے بس لوگ ہیں ، تو مَیں ہر پَل اللہ کا شُکر ادا کرتی رہتی ہوں۔ بچپن میں سوچتی تھی کہ بڑی ہو کر اپنے والدین کا سہارا بنوں گی، مگر میری بدقسمتی دیکھیے کہ مَیں تو خود اُن پر بوجھ ہی بن گئی۔ مجھے اپنی نہیں، بس والدین اور بھائی ، بہنوں کی فکر ستاتی ہے۔

ہم چاروں بہنیں ایک دوسرے کا سب سے بڑا سہارا ، غم خوارہیں، ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ کچھ ایسا دل لگ گیا ہے کہ اب کسی دوست، ساتھی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ‘‘ ’’گھومنے پھرنے کا دل چاہتا ہے؟‘‘ہم نے پوچھا تو عطیہ مہین سی مسکراہٹ کے ساتھ کچھ یوں گویا ہوئیں کہ ’’ ایسا کون ہے، جو گھومنے پھرنے کا شوقین نہ ہو۔ ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ گھر سے باہر نکلے، فیملی کے ساتھ باہر جائے، لیکن ہم بہنوں کا گھر سے باہر نکلنا والدین اور خود ہمارے لیےکسی امتحان سے کم نہیں ہوتا کہ جب انتہائی مجبوری میں گھر سے نکلنا پڑے تولوگ بہت ہی عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔

عید وغیرہ پر یا رشتے داروں میں کسی شادی کے موقعے پر کہیں جاتے ہیں تو دل میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ’’اے کاش! ہم بھی عام لوگوں کی طرح ہوتے۔‘‘ ’’سارا دن گھر پر کیا کرتی ہیںاورآپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟‘‘ کے جواب میں عطیہ نے کہا ’’بس ایک دوسرے سے باتیں کرتے ،روتے ہنستے ہی دن گزر جاتا ہے۔

زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ والدین کا اپنا گھر ہوجائے کہ امّی ، ابّودن رات محنت کرکے جو کچھ بھی کماتے ہیں وہ کرائے اور ہماری دوائیوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ ‘‘اس موقعے پر عطیہ سے چھوٹی بہن ، کلثوم نے بتایا کہ ’’جب مَیں تن درست تھی اور بڑی بہن ،عطیہ کو دیکھتی تھی تو بہت دُکھ ہوتا تھا، پر مجھے کیا پتا تھا کہ میرے نصیب میں بھی یہی زندگی لکھی ہے۔

ہم جس بیماری میں مبتلا ہیں، یہ ایک دَم نہیں، آہستہ آہستہ شروع ہوتی ہےاور پھر پورا جسم متاثر ہوجاتا ہے۔ میرے لیے زیادہ مشکل یہ بات بھی ہے کہ مَیں سانس کی بیماری میں بھی مبتلا ہوں۔مجھے بچپن ہی سے قر آن کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا اور مَیں نے حاصل بھی کی ۔ اب بس یہی خواہش ہے کہ امّی ، ابّو کا گھر اپنا ہوجائے تاکہ ان کی پریشانی کچھ کم ہوسکے۔ ‘‘امانت علی کی تیسری بیٹی، شائلہ ، جو پہلے پہل تو بات کرنے میں کچھ کترا رہی تھی، لیکن بڑی بہنوں کو دیکھ کر اُس میں بھی بات کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا، تو اس نے بتایا’’جب 12، 13 سال کی عُمر میں میری ٹانگوں میں بھی درد ہونا شروع ہوا تو مَیں سمجھ گئی کہ دونوں بڑی بہنوں کی طرح اب مَیں بھی ایک دن اس بیماری کا شکار ہو جاؤں گی۔

ماں باپ کو ہماری خدمتیں کرتا دیکھ کر بس یہی خیال آتا ہے کہ کاش ہم بھی ان کی خدمت کر پاتیں، ان کے لیے کچھ کر سکتیں۔ ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا اپنا گھر بار ہو، لیکن ہماری ایسی کوئی خواہش نہیں ہے۔ ہم تو بس امّی ابوکو خوش دیکھنا چاہتی ہیں اورمَیں تو ہر وقت یہی دعائیں کرتی ہوں کہ اللہ کوئی معجزہ کر دے اور ہم سب ٹھیک ہوجائیں۔‘‘عطیہ کی چوتھی بہن، انیلہ نے کہا ’’جب مَیں ٹھیک تھی تواپنی بہنوں کا بہت خیال رکھتی تھی، پر اب خود محتاجی کی زندگی بسر کر رہی ہوں۔

بعض دفعہ حالات سے تنگ آکر، بے بسی کی زندگی گزار تے ہوئے بہت رونا بھی آتا ہے، لیکن کچھ کر نہیں سکتی۔ تمام بہن بھائیوں میں پڑھائی کا سب سے زیادہ شوق مجھےتھا، لیکن جب ٹھیک تھی تو غربت نے نہیں پڑھنے دیا اور پھر بیمار ہوگئی۔ آج تک ہماری کسی نے کوئی مدد نہیں کی، یہاں آنے والے لوگ ہماری مدد کے لیے نہیں، ہمیں دیکھنے آتے ہیں، جیسے ہم کوئی عجوبہ ہیں۔

آنے والے پوچھتے ہیں کہ ’’یہ بیماری کیسے ہوئی، کیسے رہتے ہو وغیرہ وغیرہ‘‘ لیکن کبھی کوئی ہماری داد رسی نہیں کرتا، شفقت کے دو بول نہیں بولتا، یہ نہیں پوچھتا کہ لوگوں کہ تلخ رویّوں سے آپ کیسے نمٹتے ہیں، گزر بسر کیسے ہو رہا ہے… ہم بھی انسان ہیں، کوئی عجیب مخلوق نہیں، خدارا! ہمیں انسان ہی سمجھیں۔‘‘ امانت علی کے چھوٹے بیٹے، احسن علی، جن کی عمر اٹھارہ سال ہے، وہ کام کرنے کے ساتھ بہنوں کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ میری چاروں بہنیں چوں کہ معذور ہیں تو ان کے لیےبس یہی سوچتا ہوں کہ ایسا کیا کروں کہ وہ ٹھیک ہوجائیں، مَیں امّی، ابّو کا سہارا بننا چاہتا ہوں۔ اپنی بہنوں کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں اور ان کی ہر خواہش پوری کرنا چاہتا ہوں۔‘‘