افریقی ملکوں کی کہانی

April 13, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

افریقی ممالک کی غربت میں مقامی آبادی کیا کرتی، غیرملکی آقائوں نے آزادی دیتے وقت ایسا فارمولا اپنایا کہ آپس کی جنگوں نے جنم لیا، جیسے پاکستان اور بھارت میں مسئلہ کشمیر چھوڑ دیا، افریقہ میں تقسیم کا عمل تو دیکھئے۔ توارگ قبیلے کو پانچ جگہوں پر تقسیم کردیا۔ ہوسا قبیلے کو چار اقوام میں منقسم کر دیا۔ اس غلط تقسیم نے مسائل کو جنم دیا۔ مسائل سے غربت، بھوک، بیماری اور معاشی ناہمواری جنم لیتی ہے۔ افریقی ملکوں کے لوگ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔

افریقہ کے پندرہ ملک انتہائی غریب ہیں اور پندرہ ملک ایسے ہیں جنہیں سمندر نہیں چھوتا۔ ایک ارب تیس کروڑ آبادی کا یہ براعظم دنیا کے ساتھ سوا آٹھ سو ارب ڈالرز کی تجارت کرتا ہے۔ یورینیم افریقہ میں دنیا کا ایک تہائی ہے، موبائل فونز استعمال ہونے والا کولٹن ستر فیصد افریقہ میں ہے۔ دنیا کا 60فیصد پلاٹینیم اور 55فیصد سونا افریقی ملکوں میں ہے۔ تانبے، لوہے اور دیگر معدنیات کے وسیع ذخائر افریقہ میں ہیں۔ افریقہ کے 55ملکوں کے لئے پاکستان کے صرف 14سفارت خانے کام کر رہے ہیں۔ 14میں سے پاکستان کے ملکیتی صرف پانچ ہیں، باقی 9کرائے کی عمارتوں میں ہیں۔ پاکستان کو افریقہ کی اہمیت کا اندازہ ہونا شروع ہوگیا ہے اسی لئے اب پاکستان وہاں پانچ سفارت خانے اور کھول رہا ہے۔ نئے پاکستانی سفارت خانے روانڈا، جبوتی، آئیوری کوسٹ، گھانا اور یوگنڈا میں کھل رہے ہیں اگر پاکستان بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسے باقی ملکوں میں بھی سفارت خانے بنانا ہوں گے۔ دنیا کے بڑے ملکوں نے افریقہ کا رخ کر لیا ہے۔ اس اہم ترین مرحلے پر ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ ہم باقی دنیا سے آگے نکل جائیں۔ افریقی یونین نے فری ٹریڈ کے لئے گھانا کے دارالحکومت اکرا میں ہیڈکوارٹر بنا دیا ہے پاکستان کو وہاں ایک ایسا سفارت کار مقرر کرنا چاہئے جو اکنامک ڈپلومیسی میں مہارت رکھتا ہو، جو افریقی یونین کے ساتھ فری ٹرید معاہدے کو یقینی بنا سکے، جو پاکستان کے مفادات کی نگرانی بھی کر سکے۔ اس سلسلے میں احمد علی سروہی جیسے کیریئر ڈپلومیٹ سے کام لیا جا سکتا ہے تاکہ افریقہ کے بائیس اہم ممالک کے ساتھ بڑے تجارتی معاہدے کے ذریعے پاکستان کے تجارتی حجم میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔ پاکستان کو چند افریقی ملک چن لینے چاہئیں جہاں پاکستان کا کردار اہم ہو۔ نائیجیریا، مصر، سائوتھ افریقہ، الجیریا، ایتھوپیا، کینیا، نائیجر، تنزانیہ، آئیوری کوسٹ، سوڈان اور مراکش پر توجہ کی ضرورت ہے کہ ان کی درآمدات زیادہ ہیں۔ پاکستان حکمت عملی سے بیس فیصد بڑی اقتصادیات پر فوکس کرے، 80فیصد پیسہ اور افرادی قوت جھونک دے۔ پاکستانی حکمت کاروں کو براعظم افریقہ کے مختلف حصوں میں مختلف ملکوں کو ٹارگٹ کرنا چاہئے تاکہ پاکستان براعظم کے ہر ریجن میں نظر آئے۔ اس سلسلے میں بڑی اقتصادیات سے ہٹ کر ایسے ممالک پر فوکس کیا جا سکتا ہے جن کی حکومتیں بھرپور تعاون کے لئے تیار ہیں۔ مثال کے طور پر مغربی افریقہ میں نائیجر کی حکومت تمام تر سہولتیں دینے کیلئے تیار ہے۔ وسطی افریقہ میں چاڈ یا کانگو، افریقہ کے سینگ سے ایریٹیریا، مشرقی افریقہ سے تنزانیہ، شمالی افریقہ سے لیبیا، جنوبی افریقہ سے موزمبیق یا ملاوی کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔

اس براعظم کی آبادی صدی کے آخر تک ساڑھے چار ارب ہو جائیگی۔ افریقہ کے پاس 874ہیکٹرز زمین، 3930کیوبک کلومیٹر پانی کے ساتھ قابل کاشت ہے۔ پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو افریقہ میں پیداوار بہت کم ہے اس کی بڑی وجہ آب پاشی کے نظام کا نہ ہونا ہے۔ مثلاً افریقہ کے ایک ملک نائیجیریا نے 74ڈیمز بنائے ہیں مگر ایسے ڈیمز کا کیا فائدہ جن سے آب پاشی کا نظام نہ بن سکے اور نہ ہی بجلی پیدا ہو سکے۔ آج بھی نائیجیریا میں 16گھنٹے روزانہ لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، اتنے امیر ملک کا یہ حال کیوں ہے؟ ایک پاکستانی سفارت کار کی کوششوں سے نائیجیریا حکومت اس سلسلے میں پاکستان سے پچاس ارب ڈالر کا معاہدہ کرنے جا رہی تھی کہ ایک دوسرے نان کیریئر ڈپلومیٹ کے باعث یہ مسئلہ کھٹائی میں پڑ گیا، یہ معاہدہ پھر سے ہو سکتا ہے، ہماری حکومت کو اس پر سوچنا چاہئے۔ پاکستان صرف نائیجیریا کے لئے ہی نہیں افریقہ میں تنزانیہ، سینی گال، ایتھوپیا، سوڈان، کانگو، الجیریا، مالی، نائیجر، آئیوری کوسٹ، گھانا، صومالیہ اور زمبابوے کے لئے بھی بہترین نظام آب پاشی بنا سکتا ہے، ان ملکوں کو سنوار سکتا ہے اسی طرح کینیا، مڈغاسکر، انگولا، برکینافاسو، موریطانیہ اور بنین کو بھی آب پاشی کا نظام بنانے کی پیشکش کی جا سکتی ہے۔ افریقی طلباء ہر سال بیرونی تعلیم پر اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں، ہم وہاں یونیورسٹیاں بنا کر اپنے ملک کیلئے اربوں ڈالر کما سکتے ہیں، پاکستان لگ بھگ 5.2ارب میٹر فیبرکس بناتا ہے، 3ارب میٹر ملک میں لگ جاتی ہے۔ 2.2ارب میٹر کے لگ بھگ برآمد کی جا سکتی ہے۔ پاکستان، افریقہ کے بارہ ملکوں کو ریڈی میڈ کپڑے بھی فراہم کر سکتا ہے۔ افریقہ پاکستانی فیبرکس کے لئے بڑی مارکیٹ ہے اسی طرح زرعی شعبے میں ٹریکٹر اور زرعی آلات کی بہت مانگ ہے، انڈین ٹریکٹر بہت مہنگا ہے، پاکستان اس مارکیٹ کو ٹارگٹ کر کے بہت کچھ کر سکتا ہے، ہم اپنے زرعی ماہرین اور افرادی قوت بھی افریقی ملکوں میں بھیج سکتے ہیں، ہمارا سیالکوٹ سرجیکل اور سپورٹس کا سامان بنانے کے لئے مشہور ہے، پورے افریقہ میں اس کی مانگ ہے بلکہ ہمارے ڈاکٹرز کی بھی بڑی مانگ ہے۔ افریقی ممالک میں پاکستانی موٹر سائیکلوں کو بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔ براعظم افریقہ میں سب سے زیادہ جانور ہیں مثلاً نائیجر میں 75ملین کیٹل ہے، ہم وہاں ویٹرنری اسپتال اور کالجز بنا سکتے ہیں، چمڑے کے لئے ٹینریز بنا سکتے ہیں، ہم حلال میٹ کی پیکنگ کا پلانٹ لگا سکتے ہیں، وہاں ہائوسنگ کا شعبہ بڑھ رہا ہے، ہم اس شعبے سے متعلق تمام صنعتوں میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، سیمنٹ، سریا، الیکٹریکل اور سینٹری سامان مہیا کر سکتے ہیں۔ چاول کیلئے افریقہ ایک بڑی مارکیٹ ہے ہم جتنا بھی چاول پیدا کر لیں، اس کا خریدار افریقی ملکوں میں ختم نہیں ہوتا، ہم ہیلتھ، ایجوکیشن اور ٹورازم سے اربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ بقول رفیق راز ؎

کرئہ ارض کو بہتر تو بنا سکتے ہیں