پاک روس تعلقات کا ثمر آور آغاز

April 13, 2021

وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے حالیہ دورہ پاکستان کی واضح حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے دو روزہ قیام کے اختتام پر ہی ماسکو کے اسلام آباد سے دوطرفہ ثمر آور تعلقات کے نئے عزم و ارادے کی عملی شکل آشکار ہوئی ہے۔ اس حوالے سے بعض ملکی و غیر ملکی تجزیوں میں اس یاددہانی کی کوئی اہمیت نہیں کہ پاکستان تو وہ ملک ہے جس نے افغانستان کی دلدل میں پھنسے سوویت یونین کے ٹوٹنے میں، کریملن کے درپے عالمی قوتوں کے بیس کیمپ کا کردار ادا کیا تھا۔ بات تو ٹھیک ہے لیکن روسی بھی جانتے ہیں کہ بھارت کا سوویت یونین سے معاہدہ دوستی (1971) اصل میں تو شورش زدہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے (جس کا آرکٹیکٹ بھارتی سفارتی تاریخ کا بگ برین، ڈی پی دھر تھا) کی بھارتی سازش کی تکمیل کا لازمہ تھا۔ اس پر دستخط بھی ماسکو یا دہلی میں نہیں علامتی طور پر کلکتہ میں ہوئے تھے۔ سوویت یونین نے بھارت کی یہ مکمل ناجائز ضرورت ’’معاہدہ دوستی‘‘ کی آڑ میں پوری کی تھی، کیونکہ بھارت کیغیروابستہ ملک کی نام نہاد حیثیت کا یہی تقاضا تھا کہ وہ کسی ملک کے ساتھ کھلے عام دفاعی معاہدہ کر کے غیرجانبدار ممالک کی عالمی تحریک (NAM) کا رکن نہیں رہ سکتا تھا۔ ویسے بھی ریاستی تعلقات کی تاریخ میں تو حال کے تقاضوں کے برعکس بہت کچھ درج و دفن ہوتا ہے۔ حالات حاضرہ کی تشکیل ان سے نہیں ہوتی۔ اس کا ذریعہ تو اقوام کی ظہور پذیر ضرورتیں اور واقعات ہی بنتے ہیں جیسے پختونستان ا سٹنٹ، ڈیورنڈ لائن اور پشاور میں بڈابیر کا روس مخالف فضائی جاسوسی کا اڈہ، بس تاریخ کا ہی اندراج اور مدفن ہیں۔

ماضی میں پاکستانی کلاسیکل اور موسمی لیفٹ اور کتنے ہی دوسرے مکمل تجزیوں کی پیش کی گئی یہ تصویر کہ پاکستان اور سوویت یونین کی دوری میں شدت اور یکسانیت رہی اور پاکستان جیسے تھرو آئوٹ امریکی گلے کا تعویز ہی بنا رہا، تاریخی حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ جیسے حال ہی میں زیربحث موضوع کے حوالے سے ناچیز نے ایسے تجزیے اور تبصرے پڑھے اور سنے جس میں یہ غلط بیانی کی گئی کہ روس کے کسی حکومتی سربراہ نے کبھی پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ حالانکہ سوویت وزیر اعظم کوسیجن نے اپریل 1968میں اسلام آباد اور لاہور کا تین روزہ دورہ کیا تھا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ 65 کی پاک بھارت جنگ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے اور فائر بندی کے بعد دوبارہ سے جنگ شروع ہونے کے امکانات کو ختم کرنے کے لئے پاکستان نے اس وقت بھارت کے مکمل حلیف سوویت یونین کی ثالثی کو قبول کیا، جس کا نتیجہ معاہدہ تاشقند (فروری 1966) کی صورت میں نکلا۔ اس وقت دونوں ملکوں اور خطے کے امن کی یہی فوری اور بہترین صورت تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ایوب کابینہ کے شارپ وزیر خارجہ نے اسے دفاع پاکستان سے سرشار چارجڈ پاکستانیوں کا سیاسی ہیرو بننے کا بہترین موقع جانا۔ انہوں نے بڑے ڈرامائی انداز سے معاہدہ تاشقند کو پاکستان کے خلاف مشکوک بنا دیا اور قوم میں دسیوں مرتبہ اعلان کر کے کہ ’’میں جلد اس (معاہدے) کی اصل حقیقت بتائوں گا‘‘ ایک گہرا تجسس پیدا اور ایوب خان کو بھی عوام کی نظروں میں مشکوک کر دیا جبکہ ایوب خان، جنگ کے دوران ہی پاکستان کو امریکی اسلحے کی فراہمی پر پابندی سے دلبرداشتہ ہو کر کھلے عام اس کا اظہار کرنے لگے تھے، پھر انہوں نے ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ لکھ کر یا لکھا کر اس کا رسمی اور برملا اظہار کیا۔ اسی نئی صورت حال میں پاک روس مراسم کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ کراچی میں اسٹیل مل لگی، روس نے پاکستان کو ٹینکس، ہیوی ملٹری وہیکلز، ہیلی کاپٹرز فراہم کئے، دونوں ملکوں میں تجارت کا آغاز ہوا۔ اس سے قبل پاکستان بھی ویت نام کی جنگ میں، اس وقت چینی اور روسی موقف کی ہی طرح امریکی فوجوں کے انخلاء کا حامی رہا۔ چین سے ہماری دوستی اس وقت پروان چڑھی جب امریکہ سے بھی ہمارے بلند درجے کے کثیر الجہت دوطرفہ تعلقات تھے، تبھی تو عوامی جمہوریہ چین کو بالآخر تسلیم کرنے اور باب دوستی کھولنے کے لئے امریکہ کو پاکستان سے نتیجہ خیز سفارتی تعاون حاصل کرنا پڑا۔

سوویت یونین دیکھتے دیکھتے مہینوں میں تحلیل ہو گیا، پاکستان دولخت ہوا، اب بھارتی سیکولر سے ہندو بنیاد پرست بن گیا، وہ بھی بڑے ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ۔ اپنے ہی ملک میں اس نے بنیادی انسانی حقوق اور شہریوں کو آئینی ضمانتوں کی دھجیاں اڑا دیں، اس کا ترقی پذیر دنیا کا آئیڈیل سیکولر جمہوریہ بننے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا اور ہو رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق اور اپنے ہی آئین کی بدترین خلاف ورزی کی عالمی رپورٹس میں مہینوں کی بنیاد پر تصدیق ہی نہیں ہو رہی، معاملہ مصدقہ ریاستی دہشت گردی تک جاری اور بڑھتا جا رہا ہے تو امریکہ بھارت تعلقات بھی بڑھتے بڑھتے ایسے دفاعی اتحاد تک پہنچ گئے ہیں جن کا دائرہ امریکہ اور بھارت سے ہزارہا میل دور چین کے ساحلوں تک پہنچ گیا ہے۔ آزاد تجارت اور معیشت کے مقابلے میں امریکہ چین سے کوسوں پیچھے رہ گیا تو اب ’’ٹریڈ وار‘‘ ایجنڈا بن گیا، جس سے بڑی ہولناک جنگ اور جنگوں کے امکانات مشرق وسطیٰ سے لے کر چین کے ساحلوں تک اور پورے بحر ہند میں منڈلانے لگے ہیں۔ تیسری جنگ عظیم کے امکانات پر مبنی تجزیے ہو رہے ہیں جس میں میدان جنگ عشروں پہلے کی پیش گوئیوں اور دوربینی کے مطابق ایشیا ہی ہو گا۔ اس سارے پس منظر میں پاکستان کی نئی جیو پولیٹکل اور مکمل واضح ہونے والی جیو اکنامک حیثیت پاکستان کے دکھ درد، پیچیدگیاں، بحران، عدم استحکام کم اور ختم ہونے کو واضح کر رہی ہیں۔ جتنے روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں، ملک کے داخلی معاملات اتنے ہی دگرگوں ہیں۔ حکومت ہرگز اس پوزیشن میں نہیں کہ سازگار حالات کو مینج کر کے وہ کر سکے جو شدت سے مطلوب ہے۔ اس کی اتنی کیپسٹی ہی نہیں، حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ہی نہیں، اپنی اپنی دھڑے بندی بھی انتہا پر ہے۔ پاکستان پر عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل کو کمتر کرنے کے کتنے ہی راستے واضح ہو رہے ہیں لیکن کوئی راہ نظر نہیں آرہی کہ ہم بطور قوم اس کا بیش بہا فائدہ اٹھانے کے لئے وہ کریں جو اشدضروری ہے۔ کوئی تھنک ٹینکس اتنی کیپسٹی کے ہوتے جو حکومتی کوتاہیوں کو پورا کرنے میں اس کی رہنمائی کرتے۔ حکومت اپوزیشن کشیدگی کی حد کا تعین کرتے، کوئی قومی تحریک اور ایجنڈا بناتے۔ اب جو بھی اور بکھرا پوٹینشل ہے (ہے تو بہت) اسے کوئی منظم و متحد کر کے کوئی ایسا فورم، مرکز ذریعہ بنے جو حکومت اپوزیشن کھلواڑ کو ختم کر کے دونوں کو ایک سنجیدگی کے ساتھ پارلیمان میں داخل کرنے کے لئے کوئی نتیجہ خیز موو کرے۔ سوچو پاکستانیو سوچو!