میانمار بھی نیوکلیئر دوڑ میں شامل؟

April 13, 2021

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ایک ریٹائرڈ ڈائریکٹر رابرٹ کیلی نے کہا ہے کہ برما یا میانمار نیو کلیئر بم بنانا چاہتا ہے ۔ کیلی نے ان تصویروں اور دستاویزات کی چھان بین میں مہینوں صرف کئے ہیں جو برما کی فوج کے انجینئر نے، جو حال ہی میں ملک سے فرار ہوا ہے، فراہم کئے ہیں۔ میانمار کی حکومت کے ایک مخالف گروپ جس کے بیشتر ارکان روپوش ہیں ’ڈیموکریٹک وائس آف برما‘‘ نے جو ناروے میں قائم ہے اور یورپی ملکوں میں اس تنظیم کے نمائندے میانمار میں جمہوریت کے لئے کام کررہے ہیں رابرٹ کیلی کو بہت سے ثبوت اور دستاویزات دکھا کر اس کام کے لئے مامور کیا تھا اور اسے ایجنسی کی طرف سے ایک جامع رپورٹ پیش کرنے کے لئے استدعا کی تھی ۔

ایک اور ذمہ دار عہدیدار علی فودل، جنہوں نے اس رپورٹ کی تیاری میں کیلی کی مدد کی ہے اور واقعات کی چھان بین میں چشم دید واقعات کی بھی نشان دہی کی ہے ،کہتے ہیں کہ اس بات کا سب سے نمایاں اور طاقتور ثبوت یہ ہے کہ میانمار / برما نیوکلیئر ہتھیاروں پر کام کررہا ہے ۔ہمارے پاس ان علاقوں کی تصویریں اور سازوسامان کی رسیدیں ہیں علاوہ ازیں ہمارے پاس ان اشیاء کی تصویریں بھی ہیں جنہیں ’’بم ایڈکشن ویسلز‘‘ کہا جاتا ہے ۔ادھر ناروے میں بھی تنظیم نے اشتہار اور ہینڈ بل کے ذریعے ان چیزوں کی تشہیر کی ہے جو میانمار کی فوجی حکومت نیوکلیئر ہتھیاروں کیلئے خرید چکی ہے۔

ناروے میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ مشینیں مختلف فیکٹریوں میں یورینیم کے کیمیکل کمپائونڈ تیار کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میانمار کے فوجی منحرف عہدیدار میجر سائی کی فراہم کردہ دستاویزات تصویریں اور ویڈیوز بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ میانمار در پردہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ رابرٹ کیلی نے کہا ہے کہ یہ تمام ثبوت اس بات کا اظہار ہیں کہ میانمار نیو کلیئرپلانٹ کے بجائے نیو کلیئر اسلحہ کی تیاری کا منصوبہ بنا رہا ہے اور خطے کے ممالک اسے بھرپور مدد دے رہے ہیں ۔کیلی نے یہ بھی بتایا کہ میجر سائی اور میانمار کے صحافیوں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات سے اس بات کا واضح اشارہ ملتا ہے کہ برمی حکومت ایٹمی اسلحے کی تیاری کا عزم رکھتی ہے ، وہ اس مشن پر بھاری وسائل خرچ کر رہی ہے اور افزودہ یورینیم کے نیوکلیائی ذرات کو یورینیم کی دھات میں تبدیل کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں جن رنگین تصویروں کا تجزیہ کیا گیا ہے ان میں برما کے فوجی افسروں اور سویلین عہدیداروں کو ایک مشین کے ساتھ کھڑا دکھایا گیا ہے اس مشین کو’’ویکیوگلووبلس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ یورنیم کی دھات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ علی فودل کہتے ہیں کہ اس رپورٹ میں جن دو فیکٹریوں کا تجزیہ کیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ انہیں صرف برما کے انجینئرز چلاتے ہیں چونکہ برما ابھی نیو کلیئر ٹیکنالوجی کی تیاری کے ابتدائی مراحل میں ہے۔ اس لئے اس کی بنائی ہوئی بعض مشینیں یا بعض مواد انتہائی بھدے ہیں ۔ اس تفتیشی رپورٹ میں مرکزی حیثیت برما کے تھان تھیٹن ون کو حاصل ہے (منحرف شدہ فوجیوں میں سے ایک) وہ فوج کے سابق انجینئر اور میزائل کے ماہر مانے جاتے ہیں جنہوں نے برما کے اداروں میں کام کیا ہے اور روس سے ٹریننگ حاصل کی ہے۔ون کا پس منظر قابل اعتبار ہے اور ون کی بنائی ہوئی تصویروں کی تعداد اور کوالٹی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اصلی ہیں۔ون، جو اب برما کو خیر باد کہہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ میری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ میں جو کچھ جانتاہوں اس سے دنیا کوآگاہ کروں۔ اس رپورٹ کے جاری کئے جانے سے چند گھنٹے قبل امریکی سینیٹر جم ویب نے اپنا برما کا دورہ منسوخ کر دیا اور کہا امریکہ کو اس بات کی تشویش ہے کہ مبینہ طور پر شمالی کوریا نے برما کو ہتھیار فراہم کئے ہیں۔ میرے خیال میں ان دو الزامات یعنی برما اور شمالی کوریا کے لین دین میں ملوث ہونے اور نیو کلیئر پروگرام کے امکانات کے بارے میں کافی مواد اور ثبوت موجود ہیں جسے طے کرنا ضروری ہے اس کے بغیر میرے لئے اس وقت برما کا دورہ کرنا مناسب نہیں ہوگا‘‘۔ سینیٹر جم ویب نے برما کی فوجی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے او بامہ انتظامیہ کی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ علاوہ ازیں وہ مشرقی ایشیا سے متعلق کمیٹی سے امریکی سینٹ کے پینل کے چیئرمین بھی ہیں۔ میرے حساب سے اس وقت نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔دنیا میں گزشتہ چار سال کے دوران ایٹمی پلانٹ تعمیر کرنے کے خواہشمند ممالک کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس وقت دنیا کے پچاس سے زیادہ ممالک جوہری پلانٹ کی تعمیر کی خواہش رکھتے ہیں اور ان کی تعمیر کے لئے عالمی ادارہ برائے ایٹمی توانائی (آئی اے ای اے) کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ یورپ کے ذرائع ابلاغ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کا پڑوسی ملک برما، جو مشرقی سرحد پر واقع ہے، کی جانب سے ایٹمی اسلحہ کے پروگرام کا آغاز کر دیا گیا ہے اگرچہ برما کو پاکستان جیسا ’’دشمن ملک‘‘ نہیں قراردیا جاسکتا تاہم باور کیا جاسکتا ہے کہ اس کی فوجی حکومت کے بھارت کی بجائے چین سے زیادہ قریبی روابط اور تعلقات ہیں ۔جس کے نتیجےمیں بھارتی پالیسی سازوں کے لئے ایک اور حکمت عملی کا چیلنج پیدا ہورہا ہے کہ بھارت بہت جلد چین، پاکستان اور برما جیسی نیو کلیئر پاورز کے درمیان گھر جائے گا اور اگرمشرقِ وسطیٰ کی طرف سے بھی دیکھا جائے تو ایران کے بعد سعودی عرب بھی ایٹمی میدان میں اترنے والا ہے۔ ہالینڈ کے ایک جریدے کے مطابق ابھی دو سال قبل جہاں سعودی عرب نے کہا تھا کہ اسے نیو کلیائی طاقت بننے کی کوئی ضرورت نظر نہیں آتی مگر اب ایسا نہیں ہے وہاں اردن کے شاہ عبداللہ نے حال ہی میں اسرائیل کے اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ضابطے بدل چکے ہیں… ہر کوئی نیوکلیائی پروگرام کی طرف بڑھ رہا ہے‘‘۔