گمنام صوفی

April 13, 2021

گمنام صوفی کو میں ایک لمبے عرصہ سے جانتا ہوں۔ کب سے؟ یہ تو مجھے یاد نہیں، لیکن میں محسوس کرسکتا ہوں کہ میں گمنام صوفی کو تب سے جانتا ہوں، جب سے میں اس دنیا میں آیا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ میرے ساتھ اس دنیا میں آیا تھا، یا پھر میں اس کے ساتھ اس دنیا میں آیا تھا۔ یہ غیب کی باتیں ہیں جن کا علم مجھے نہیں ہے۔ میں نے کبھی اس سے نام نہیں پوچھا۔ اور اس نے کبھی مجھ سے میرا نام نہیں پوچھا۔ وہ میرے لئے گمنام ہے۔ میں اس کے لئے گمنام ہوں۔

وہ بہت دیر سے کراچی کینٹ اسٹیشن کے قریب باکڑا ہوٹل کے کونے میں بیٹھا ہوا تھا اور قریب کے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے نوجوان دوستوں کی گرما گرم بحث سن رہا تھا۔ دوستوں کے درمیاں بحث چل نکلی تھی کہ مدرٹریسا جنت میں جائے گی، یا کہ نہیں جائے گی۔ کچھ دوستوں کا موقف تھا کہ مدرٹریسا نے چونکہ زندگی بھر انسانیت اور کچلے ہوئے انسانوں کی خدمت کی تھی۔ لہٰذا وہ یقیناً جنت میں جائے گی۔ دوستوں کے دوسرے گروپ کا کہنا تھا کہ صرف دکھی انسانیت کی خدمت کرنے سے آپ جنت کے حقدار نہیں بنتے۔ جنت میں جانے کے لئے خدمت خلق کے علاوہ آپ کو کچھ اور فرائض بھی پورے کرنے پڑتے ہیں۔ بحث میں گرما گرمی بڑھنے لگی۔ میز پر مکے لگنے لگے۔ درمیان کے فاصلے کم ہونے لگے۔ باکڑے میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے پلٹ کر دوستوں کی طرف دیکھا۔

آپ باکڑا ہوٹل کا مطلب سمجھتے ہیں نا؟ مطلب بتانے سے بہتر ہے کہ کوئی مناسب مثال دےدوں۔ جس طرح آج کل ڈھابا نام کے چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹ دیسی کھانوں کے لئے ہر دل عزیز ہوگئے ہیں، عین اسی طرح ہمارے پرانے شہر کراچی میں باکڑا ہوٹل ہوتے تھے۔ بیتے ہوئے برسوں میں کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن عام آدمیوں کے لئے کم اورانگریز فوجیوں کی آمدورفت کے لئے زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ قریب ہی انگریز فوجیوں کی چھائونی ہوا کرتی تھی۔ کراچی آنے اور کراچی سے جانے کے لئے سٹی اسٹیشن کام میں آتا تھا۔ پرانے شہر کراچی کی قدیم آبادیاں کھارادر، میٹھادر، بولٹن مارکیٹ، بمبے بازار، نیوچالی، منسپالٹی (اب میونسپل کارپوریشن)، فریئر روڈ، بزنس روڈ، میکلوڈ روڈ (اب آئی آئی چندریگرروڈ) اور گاڑی کھاتہ (اب پاکستان چوک) سٹی اسٹیشن سے قریب تھے۔

تبدیلی آتی رہتی ہے۔ کسی کے بلانے سے نہیں آتی۔ کسی کے روکنے سے نہیں رکتی۔ تبدیلی قدرتی عمل ہے۔ گزرتے ہوئے ہر لمحہ کے ساتھ ہم تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کراچی کے روڈ راستے تبدیل ہونے لگے۔ روڈ راستوں کے نام تبدیل ہوئے۔ کراچی سٹی اسٹیشن کی اہمیت گھٹنے لگی۔ کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کی اہمیت بڑھنے لگی۔ کراچی کینٹ اسٹیشن پر اکا دکا ریل گاڑیاں رکتی تھیں، وہ بھی دو تین منٹ کے لئے۔ ورنہ ایکسپریس گاڑیاں کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہونے کے بعد کراچی کینٹ، ڈرگ روڈ اسٹیشن، ملیر، لانڈھی، پیری، دھابیجی ریلوے اسٹیشن پر جاکر رکتی تھیں۔ پلیٹ فارم صاف ستھرے ہوتے تھے۔ ریل گاڑیوں کے آنے اور روانہ ہونے میں چند منٹ کی تاخیر کو بہت بڑی کوتاہی سمجھا جاتا تھا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ بدل گیا۔ تبدیلی تبدیلی ہوتی ہے۔ تبدیلی اچھی ہوتی ہے، تبدیلی بری بھی ہوتی ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ منفی یا مثبت تبدیلی کسی کے بلانے، پکارنے نعرہ بازی سے نہیں آتی۔ تبدیلی On going Processہے۔ ہمیشہ جاری رہنے والا قدرتی عمل ہے۔ اسی قدرتی عمل کے پیش نظر باکڑا اب ڈھابا بن گئے ہیں۔ گزرے ہوئے کل کی یادوں میں کھوئے ہوئے ہم لوگ باکڑا کو ڈھابا نہیں کہتے۔ ہم باکڑا کو اب بھی باکڑا ہوٹل کہتے ہیں۔۔میرا دوست، میرا ہم دم کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کے قریب پرانے دور کے باکڑا ہوٹل میں بیٹھا ہوا تھا اور دوستوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ بلکہ ان کے درمیان ہونے والی دھواں دھار بحث سن رہا تھا۔ سب دوست ٹیلیوژن چینلز پر سیاستدانوں کے پروگرام کی طرح ایک ساتھ بول رہے تھے۔ میز پر مُکے مار مار کر ایک دوسرے پر چلا رہے تھے۔ ’’مدر ٹریسا جنت میں نہیں جائے گی‘‘۔

’’مدرٹریسا جنت میں جائے گی‘‘۔

’’نہیں جائے گی۔ ضرور جائے گی۔‘‘

’’بکواس بند کرو۔‘‘

’’تم بکواس بند کرو۔‘‘

دوستوں نے آستینیں چڑھا لیں۔ مٹھیاں بھینچ لیں۔ اس سے پہلے کہ دوست دست و گریباں ہوتے گمنام صوفی اپنی جگہ سے اٹھ کر اُن کے پاس آیا۔ جھک کر اس نے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ دیے۔ لڑتے جھگڑتے دوست خاموش ہوگئے۔ تعجب سے گمنام صوفی کی طرف دیکھنے لگے۔

’’کون جنت میں جائے گا، کون دوزخ میں جائے گا، اس کا فیصلہ اوپر والے کو کرنا ہے۔‘‘ گمنام صوفی نے کہا۔ ’’ویسے بھی۔ مدرٹریسا عیسائی تھی۔ عیسائیوں کی اپنی جنت ہے۔ وہ اپنی جنت کو ہیونHeavenکہتے ہیں۔مدرٹریسا اپنی جنت، ہیون میں جائے گی۔‘‘

لڑتے جھگڑتے دوستوں کو ہکا بکا چھوڑ کر گمنام صوفی باکڑے سے باہر نکل گیا۔