بجلی کی قیمت نہ بڑھانے کا فیصلہ

April 14, 2021

وطن عزیز کو اپنی 73سالہ تاریخ کے کم ازکم دو عشروں میں توانائی کے جس بحران کا سامنا کرنا پڑا اور اس سے ملک صنعتی لحاظ سے جس قدر پیچھے چلا گیا، 2300ارب روپے سے زیادہ کے گردشی قرضے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ آج بجلی تو میسر ہے لیکن اس کی ہوشربا اور مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں گھریلو صارفین سے لیکر صنعت و تجارت تک زندگی و معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں ایک چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت بجلی کی کل پیداوار کا 54 فیصد حصہ تیل وگیس جیسے مہنگے ترین ذرائع سے حاصل ہورہا ہے جن کی درآمد پر صرف ہونے والا کثیرزرِ مبادلہ اس کے علاوہ ہے ۔ان حالات میں معاونِ خصوصی برائے توانائی تابش گوہر کا یہ نہایت حوصلہ افزابیان سامنے آیا ہے کہ وزیراعظم نے پاور ڈویژن کو بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے منع کر دیا ہے۔ گردشی قرضوں پر قابو پانے کے لئے آئی پی پیزکے ساتھ بجلی معاہدوں پرنظر ثانی کی جائے گی اور نئی پاور پالیسی بھی کابینہ کی توانائی کمیٹی کو پیش کی جا رہی ہے۔یہ حقیقت کس سے پوشیدہ ہے کہ بھوک اور بیروزگاری کا معاشرے میں بےیقینی اور اضطراب کو جنم دے کر اس کے تارو پود بکھیرنے میں ہمیشہ بنیادی کردار رہا ہے اور پچھلے دو، ڈھائی برس کے دوران ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی مسلسل بڑھتی شرح کی وجہ سے ہر شہری پریشان دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں بجلی کے نرخ نہ بڑھانے کا فیصلہ عوام کے لئے کسی خوشخبری سے کم نہیں۔ رمضان کا بابرکت مہینہ بھی شروع ہو چکا ہے، پوری دنیا کے برعکس جہاں رمضان المبارک میں لوگوں کی آسانی کے لئے سستے بازار لگائے جاتے ہیں، پاکستان میں ناجائز منافع خوری کا سلسلہ چل نکلتا ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔حکومت کا فرض ہے کہ عوام کی زندگیاں سہل بنانے کیلئے انہیں مہنگائی کے عفریت سے نجات دلائے، یہ ایک اقدام ہی اسی کی کامیابی اور نیک نامی کیلئے کافی ہے۔