ضروری کام

April 14, 2021

خدا اگر ہمیں دکھائی دیتا تو ایمان جبر ہو جاتا۔ چھوٹی سی غلطی بھی ناقابلِ قبول ہوتی۔ دوسری طرف انسان کو بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ وہ غلطی کرے، نادم ہو اور توبہ کرے۔ خدا کو نہ دیکھ سکنے کے باوجود دنیا کی ایک عظیم اکثریت اس پہ ایمان رکھتی ہے۔ مسلمان اور عیسائی دنیا کی آبادی کا 56فیصد ہیں، چار ارب چھتیس کروڑ۔ یہودی بھی خدا کو مانتے ہیں۔ قرآن میں لکھا ہے کہ شروع میں سب ایک خدا پر یقین رکھتے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے نت نئے معبود ایجاد کیے۔ بہت سی چیزیں اور بہت سی پیشین گوئیاں تمام مذاہب میں یکساں ہیں، خصوصاً یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں۔ ایک تو ان میں خدا کے آخری پیغمبرؐ کی جو نشانیاں بتائی گئی ہیں، وہ بالکل یکساں ہیں۔

طوفانِ نوحؑ سے لے کر دجال اور امام مہدی ؑکی آمد تک، بہت سے تصورات یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں یکساں ہیں۔ اختلاف اس پر ہے کہ وہ کس کی مدد کے لئے نازل کیے جائیں گے؟ خدا یہ کہتا ہے کہ حشر کے دن تمہارے یہ تمام اختلافات میں نمٹا دوں گا۔

مسلمان اور عیسائی 56فیصد ہیں۔ اگر باقی مذاہب کو بھی شامل کر لیا جائے، جن میں خدا کا وجود تسلیم کیا جاتا ہے تووہ 70فیصد سے بھی بڑھ جائیں۔ دوسری طرف جو لوگ خالق کا وجود کسی بھی شکل میں تسلیم نہیں کرتے، جن کا کہنا یہ ہے کہ کائنات اور زندگی اتفاقاً وجود میں آئی، وہ 16فیصد ہیں۔

دنیا کے 70فیصد لوگ خدا پہ یقین رکھتے ہیں حالانکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے کبھی خدا تو کیا کسی فرشتے کو بھی نہیں دیکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ہی انسان زمین پہ آیا، ساتھ ہی الہامی صحیفے اور پیغمبر اترنا شروع ہو گئے۔ شروع میں سب انسان ایک خدا پہ یقین رکھتے تھے۔ بعد ازاں زمین میں بہت سے لوگ خوفناک مظاہرِ فطرت پر بھی ایمان لے آئے اور شرک کا آغاز ہوا۔ بچھڑے پر ایمان لانے والوں کے سامنے اگر آج کا ٹی وی رکھ دیا جاتا تو کیا وہ اسے سجدہ نہ کر لیتے؟

خدا پہ ایمان رکھنے والے، دنیا کے ان 70، 80فیصد لوگوں میں 25فیصد مسلمان بھی شامل ہیں۔ دنیا کے ہر چار میں سے ایک شخص مسلمان ہے۔ دوسری طرف خدا پر یقین رکھنے والے ان 70,80فیصد لوگوں میں سے وہ، جو روزانہ کی بنیاد پر خدا کی عبادت کرتے ہیں، شاید دو فیصد بھی نہیں۔ یہ کتنا بڑا تضاد ہے۔

انسان ایمان رکھتے ہوئے بھی عبادت کیوں نہیں کرتا؟ لاشعوری طور پر وہ یہ سوچتا ہے کہ میں زیادہ ضروری کام پہلے کر لوں۔ اسے اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے کھانے، پینے، اوڑھنے اور رہنے کا سامان اکٹھا کرنا ہے۔ اسے ان کے لئے آٹا ڈھونا ہے، گھر تعمیر کرنا ہے، گھر میں اے سی لگوانے ہیں، گاڑی خریدنی ہے، اسکول کی فیس جمع کرنی ہے، اسے ہنگامی صورتِ حال کے لئے رقم جمع کر کے رکھنی ہے۔ اگر اس کے پاس بہت پیسے اکھٹے ہو جائیں گے تو وہ زیرِ زمین بنکر بنانا شروع کر دے گا کہ جوہری بم گرا دیے جائیں تو وہ زیرِ زمین چھپ سکے۔

مسئلہ یہ ہے کہ خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا جسم بہت نرم و نازک ہے۔ ایک دن اچانک یہ Collapseکر جاتا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ دل کام کرنا چھوڑ گیا۔ انسان کہتا ہے تو میں دل ٹرانسپلانٹ کروا لوں گا۔ اب جنہیں میڈیکل سائنس کا علم ہے، وہ جانتے ہیں کہ ٹرانسپلانٹ شدہ دل یا گردے پر چلنے والا انسان چلتی پھرتی لاش ہوتا ہے۔ انسان جتنے مرضی وسائل اکھٹے کر لے، معمر قذافی، صدام حسین، بےنظیر، بھٹو، شیخ مجیب الرحمٰن اور اندرا گاندھی کی صورت میں تکالیف اس پر ٹوٹ پڑتی ہیں حتیٰ کہ وہ ہلاک کر دیا جاتا ہے اور اس کا سرمایہ اس کے کسی کام نہیں آتا۔

گندم، چاول، مٹی اور لوہے سمیت جو چیز بھی انسان اس دنیا میں استعمال کرتا ہے، وہ زمین سے اگتی ہے یا زیرِ زمین رکھی ہوئی ہے۔ اگر ایک چیز پر آپ کا نا م نہیں لکھا تو وہ آپ کے سامنے رکھی ہوگی اور آپ اسے کھانے سے قاصر ہوں گے۔ ڈاکٹر نے منع کر دیا ہوگا۔ دل غم زدہ ہوگا اور بھوک نہیں لگتی ہوگی۔ آپ کو اگر یہ لگتاہے کہ میں خود بہت شدید محنت کر کے کما رہا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے خود کو پوشیدہ رکھنا تھا ورنہ 7.8ارب انسانوں پہ من و سلویٰ اتر رہا ہوتا۔انسان یہ نہیں جانتا کہ رزق کمانے کی سائنس اور اس کے لئے محنت کرنے کی توفیق بھی اس پر الہام کی جاتی ہے۔

ساری زندگی انسان یہ سوچتا رہتا ہے کہ بس ذرا مالی طور پر سیٹ ہو جائوں تو پھر عبادت بھی شروع کر دوں گا۔ اچانک اس کی نظر ایک مزدور پر پڑتی ہے، جو سیمنٹ کی خالی بوری بچھا کر اس پر نماز ادا کر رہا ہوتا ہے۔ خدا کو انسان یا تو ہر حال میں یاد کرتاہے، یا کسی حال میں بھی نہیں۔ ہاں البتہ عبادت گزاروں کو عبادت نہ کرنے والوں پہ دروغہ نہیں بن جانا چاہئے کہ اسے مذہب سے مزید بیزار کر ڈالیں۔

دوسری طرف جو خدا کی یاد سے منہ موڑتاہے کہ دنیا کما لے، اس کے بارے میں خدا یہ کہتاہے کہ دنیاوی کاموں کی کثرت اس پر مسلط کر دی جائیگی، فرصت وہ کبھی پا نہیں سکے گا اور سکون سے محروم ہی رہے گا۔ ہائے دونوں ہاتھوں سے دنیا سمیٹتا انسان!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)