کھجور: نرخ نے دانت کھٹے کردیے

April 14, 2021

دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمان کھجور سے روزہ افطار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔چناں چہ برّ ِصغیر پاک و ہند میں بھی افطار کے وقت دسترخوان پر کھجوروں کی موجودگی ضروری تصوّر کی جاتی ہے۔ جوں جوں رمضان قریب آتا ہے ملک میں کھجوروںکی خریدوفروخت بڑھتی جاتی ہے۔ کراچی میں کھجوروں کی خریدوفروخت کا سب سے بڑا مرکز جونا مارکیٹ کے آخری سرے پرلی مارکیٹ کے علاقے میں کھجور بازار کے نام سے قائم ہے۔ یہ کراچی کا قدیم بازارکہاجاتاہے۔

ایک عمودی اور افقی گلی پرمشتمل یہ بازار انگریزی زبان کے حرفِ تہجّی ٹی (T) کی شکل میں نظرآتا ہے ۔یہاں تیس تا پینتیس دکانوں اور چالیس تا پچاس ٹھیلوں پر کھجور کا کاروبار ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں ٹھیلوں کی تعداد تقریباً دگنی ہوجاتی ہے اور وہ کھجور بازار کے اردگرد تک پھیل جاتے ہیں۔

یہاں تھوک اور خوردہ دونوں نوعیت کا کاروبار ہوتاہے۔ یہاں کئی دہائیوں سے کاروبار کرنے والے ایک دکان دار کے مطابق کھجوروں سے لدےدس تا بارہ ٹرک یومیہ آتے ہیں۔ ہر ٹرک میں تقریباً دس ٹن کھجوریں لدی ہوتی ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر یہاں عام دنوں میں روزانہ تقریباً سو ٹن مال آتا ہے۔ البتہ رمضان میں یہ مقداردو تا ڈھائی سو ٹن یومیہ تک جاپہنچتی ہے۔

یہاں صرف کراچی کے رہایشی کھجور خریدنے نہیں آتے بلکہ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ ان میں سے بعض ذاتی استعمال کے لیے کھجوریں خریدتے ہیں اور بعض کاروبار کی غرض سے ۔یہاں تھوک کے کاروبار سے زیادہ تر بلوچ، میمن اور اردو بولنے والے افراد وابستہ ہیں اور یہ ان کا قدیم کاروبار ہے۔ خوردہ کاروبار میں پہلے بلوچ، سندھی، میمن اور اردو بولنے والوں کی تعداد زیادہ تھی، لیکن اب پٹھان اور پنجابی بھائی نمایاں نظر آتے ہیں۔ نبی بخش اس بازار میں تقریبا پینتالیس برس سے کاروبار میں مصروف ہیں۔

وہ غیر تعلیم یافتہ ہیں اور پہلے یہاں کھجور کا ٹھیلا لگاتے تھے۔ پھر انہوں نے بازار میں دکان خرید کر کاروبار کو وسعت دی اور اس بازار میں موجود تھوک فروشوں سےکھجور خریدکر فروخت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس بازار میں پہلے زیادہ گہما گہمی ہوتی تھی، خصوصاً رمضان المبارک کے مہینے میں۔ پہلے یہاں ایک بلوچ، ایک میمن اور ایک خوجے کی دکان تھی جن میں تھوک سطح پر کاروبار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ قریب واقع پھول چوک پر خوردہ فروشوں کے چندکھوکھے یاکیبن موجود تھے۔

نبی بخش کے بہ قول کسی زمانے میں بصرے کی کھجور بادبانی کشتیوں کے ذریعے گھاس بندر پر آتی تھی،جہاں سے تھوک فروش انہیں خرید کر بازار میں لاتے تھے۔ مکران کی کھجور ایوب خان کے دور میں لانچ کے ذریعے کراچی آنا شروع ہوئی تھی۔ سکھر اور خیرپور کی کھجوریں بھی اسی زمانے میں یہاں آنا شروع ہوئیں۔ وہ ایران کی سیاہ رنگ کی ’’مضافتی بم‘‘ نامی کھجور کو معیار کے اعتبار سے سب سے اچھی بتاتے ہیں، پھر سکھر کی اصیل کا نام لیتے ہیں۔ ان کے مطابق ’’اصیل‘‘ کی تین اقسام ہوتی ہیں اور ہر قسم کے نرخ علیٰحدہ ہوتے ہیں۔

کھجور کے فی من نرخ رمضان المبارک سے قبل کچھ اور ہوتے ہیں اور رمضان کے قریب اور رمضان میں کچھ اور ہوتے ہیں۔ان کے بہ قول آج ہر شخص راتوں رات امیر بننے کی کوشش کرتا ہے، لہٰذا کھجور اگانے والے اکثر افراد اسے درخت سے توڑنے کے بعد خشک ہونے کا موقع دیے بغیر بوریوں میں بند کرکے فروخت کردیتے ہیں۔ کھجور جب تک اچھی طرح خشک نہ ہوجائے معیاری نہیں ہوتی۔ انہیں کھجوروں کا اس قدر تجربہ ہوچکا ہے کہ اگرگٹھلی ان کے سامنے رکھ دی جائے تو وہ یہ تک بتاسکتے ہیں کہ اس کھجور کا تعلق کس سرزمین سے ہے۔ ان کے بہ قول آب و ہوا کے لحاظ سے کھجور کے درخت اور ان کے پھل علٰیحدہ علٰیحدہ ہوتے ہیں۔کسی علاقے میں درخت پر پک کر تیار ہونے والی اورکسی علاقے میں درخت سے توڑ کر زمین پر خشک کی گئی کھجور بہتر ہوتی ہے ۔

کہیں کھجور کے درخت کے بچّے اگانے سے اورکہیں بیج کے ذریعے درخت اگانے سے اچھی کھجوریں حاصل ہوتی ہیں۔ انہیں شکوہ ہے کہ اب کھجور کے قدردان نہیں رہے۔ پہلے یہ بازار بہت چھوٹا تھا اب بہت پھیل جانے کے باوجود کاروبار میں پہلے والا مزا نہیں رہا۔ نئی نسل کے لوگ یہ کاروبار پسند نہیں کرتے، وہ اسے میلا کچیلا کاروبار کہتے ہیں، لہٰذا بہت سے پرانے کاروباری حضرات کے انتقال کے بعد ان کے بچّے اس جانب نہیں آئے۔

صلاح الدین اس بازار میں طویل عرصے سے کھجوروں کا کاروبار کررہے ہیں۔ ان کے بہ قول قیام پاکستان کے بعد ان کے والد نے یوپی (بھارت) سےکراچی ہجرت کرنے کے بعد 1948ء میں یہ دکان خریدی تھی۔پہلے ان کے والد دکان میں بیٹھتے تھے۔ صلاح الدین پندرہ برس کے تھے کہ دکان میں بیٹھنے لگے تھے۔ تب سے اب تک انہوں نے اس بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی ہے ،حتیٰ کہ جس عمارت (موہن لال کپور رام بلڈنگ) میں ان کی دکان ہے اس میں بھی کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔

ان کے مطابق اس بازار کے کاروبار میں انہوں نے ایک قابلِ ذکر تبدیلی بس یہ دیکھی ہے کہ کئی برس سے یہاں ایران اور سعودی عرب سے عمدہ معیار کی صاف کی ہوئی کھجوریں ڈبّوں میں پیک ہو کر آنے لگی ہیں۔ پچاس برس قبل کے کھجور بازار کی تصویر پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی یہاں ایسی ہی رونق ہوتی تھی۔ البتہ اس دور میں پورے کراچی میں صرف یہیں کھجور ملتی تھی اور جگہ جگہ کھجور کے ٹھیلے نہیں لگتے تھے۔

اس تاجر کے مطابق کھجور کا کاروبار شعبان، رمضان اور ذی الحج کے مہینوں میں عروج پر ہوتا ہے۔ شعبان کے مہینے سے عام آدمی اور کھجور کی خریدوفروخت سے وابستہ افراد یہاں آکر دیگر مہینوں کے مقابلے میںزیادہ خریداری کرتے ہیں جو دراصل رمضان المبارک کی تیاری ہوتی ہے ۔ ذی الحج کے مہینے میں حج کرکے واپس آنے والے افراد کھجوریں خریدتے ہیں تاکہ وہ سعودی عرب سے تبرّکاً لائی ہوئی کھجوروں کے ساتھ ملا کر عزیزواقارب اور احباب میں تقسیم کرسکیں۔

ان کے مطابق سب سے سستی قسم کی کھجور حسینی اور گھونگنا ہوتی ہیں۔اعلیٰ قسم کی سیاہ ایرانی مضافتی اور سعودی عرب کی کھجوریں ان کے مقابلے میں منہگی ہوتی ہیں۔ اعلیٰ قسم کی ایرانی کھجور ’’اسپیشل مضافتی بم‘‘ کے نام سے بازار میں فروخت ہوتی ہے۔

کھجور بازار میں کاروبار کا آغاز عموماً صبح آٹھ نو بجے ہوتاہے اور مغرب کے وقت دکانیں بند ہونے لگتی ہیں، تاہم ٹھیلے والے رات کے دس گیارہ بجے تک کاروبار میں مصروف رہتے ہیں۔

سیزن، بالخصوص رمضان میں بعض اوقات یہاں ساری رات کاروبار جاری رہتا ہے۔ یہاں کھجوریں کمیشن ایجنٹس کے ذریعے پہنچتی ہیں۔ وہ ملک کے مختلف علاقوں میں کھجور اتارنے والوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور وہاں سے کھجوریں خرید کر بازار میں پہنچاتے رہتے ہیں۔ بیرونی ممالک سے مال دو طرح سے آتا ہے یعنی بندرگاہ سے اور بلوچستان کے راستے اسمگل ہوکر۔

سعودی عرب کی کھجوریں وہاں سے بہ راہِ راست یہاں آتی ہیں، عراق کی جنگ کے بعد سے بصرہ کا کافی مال دبئی کے راستے کراچی آتاہے۔ ایران سے بڑی مقدار میں کھجوریں اسمگل ہو کر بلوچستان آتی ہیں اور وہاں سے لانچوں یا زمینی راستے سے کراچی آتی ہیں۔

اس بازار میں کھجوریں خریدنے کے لیے آنے والے افراد محمد شرجیل، رافع احمد، سلطان، عبدالمقیم، فواد اور شاہد ترمذی کے مطابق رمضان المبارک کی وجہ سے کھجور کے نرخ میں بہت زیادہ اضافہ کردیا گیا ہے۔اب سو ،ڈیڑھ سوروپے فی کلو کے سے کم میں کوئی کھجور دست یاب نہیں ۔ ان افراد کے بہ قول بازار میں نا پختہ کھجور کے نرخ بھی بڑھا چڑھا کر بتائے جارہے ہیں۔ بعض دکانوں اور ٹھیلوں پر ایک ہی قسم کی کھجوروں کے مختلف ڈھیر نظر آتے ہیں جن میں کھجوروں کے سائز میں معمولی سا فرق ہوتا ہے۔

کہیں رنگ میں تھوڑے بہت فرق کی وجہ سے علیٰحدہ علٰیحدہ ڈھیر نظر آتے ہیں۔ خریداروں اور دکان داروں سے ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ کھجور فروخت کرنے والے دو تین اقسام کی کھجوریںرنگ اور جسامت کے لحاظ سے مختلف درجوںمیں تقسیم کرکے خریداروں پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے پاس کئی اقسام کی کھجوریں ہیں اور ہر قسم کی کھجور کے نرخ مختلف ہیں۔ اس طرح خریدار کی جیب سے زیادہ سے زیادہ پیسا اینٹھ لیا جاتا ہے۔

بازار میں ٹھیلے پر کھجور بیچنے والے شاہ گل کے مطابق اس کاروبار میں ہیر پھیر کے وہ تمام طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جو دیگر کاروبار میںاستعمال ہوتے ہیں۔ گاہک کو متوجّہ کرنے کے لیے سیاہ، بڑی اور لذیذ ترین کھجوریں سامنے کی جانب یا نمایاں مقام پر ترتیب دی جاتی ہیں اور گاہک کو چکھانے کے لیے ہمیشہ مال کے بہترین حصے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ تھوک فروش فی کلو 5 تا 10 روپے اور خوردہ فروش 10 تا 15 روپے منافع کماتے ہیں۔ رمضان المبارک میں یہ شرح درہم برہم ہوجاتی ہے۔ ہر سطح پر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعض اوقات طلب اور رسد میں مصنوعی عدم توازن ملی بھگت سے پیدا کیا جاتا ہے۔

کھجور بازار میں نرخوں کے علاوہ صحت و صفائی کی صورت حال سے بھی لوگ نالاں نظر آئے۔ دکان دار اور خریدار دونوں ہی اس بارے میں حرفِ شکایت زبان پر لائے۔ تاہم دونوں کی شکایات میں فرق تھا۔ دکان داروں کی توجہ جب دکان کے چپچپاتے فرش اور ٹھیے کی جانب مبذول کرائی گئی اور ’’مکھیوں کے جھرمٹ‘‘ میں کاروبار کرنے سے پیدا ہونے والی جھنجلاہٹ سے نجات پانے کے لیے کسی ممکنہ اقدام کی بابت سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ادارے صرف ٹیکس لینا جانتے ہیں، وہ صفائی ستھرائی پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔

یہاں کے دکان دار بھی بلدیہ کو ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن صفائی کے لیے کوئی خاص سرکاری انتظام نہیںہے۔ خریداروں کا موقف تھا کہ دکانوں اور ٹھیلوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے برسوں سے انہیں صاف نہیں کیا گیا ہے۔ جس ہاتھ سے میلے کچیلے کرنسی نوٹ اور سکّے وصول کیے جاتے ہیں،ا سی ہاتھ سے کھجور نکال کر تولی جاتی ہے اور چکھانے کے لیے پیش کی جاتی ہے۔ کسی دکان یا ٹھیلے پر جالی لگی ہوئی نظر نہیں آتی۔ بازار کی گلیوں تک میں چپچپاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ یہاں کی گلیوں کی بھی برسوں سے صفائی نہیں ہوئی ہے۔

دکھانا کچھ، دینا کچھ

ایک پتھارے کے قریب پہنچے تو وہاں ایک شخص بلند آواز سے پتھارے والوں کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ اس شخص نے اپنا نام شاہد بتایا۔ برہمی کی وجہ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ ایک روز قبل پتھارے والے سےڈیڑھ سو روپے فی کلو کے حساب سے دو کلو کھجوریں خرید کر گھر لے گیا تھا۔ گھر پہنچ کر اس نے لفافہ کھولا تو اس میں سے جو کھجوریں نکلیں وہ ان کھجوروں کے برعکس تھیں جو پتھارے والے نے انہیں دکھائی تھیں۔

شاہد کے بہ قول پتھارےدار نے انہیں بڑی بڑی، علٰیحدہ علٰیحدہ اور سیاہی مائل کھجوریں دکھائی تھیں لیکن گھر پہنچ کر ان کے لفافے سے چھوٹی چھوٹی اور سرخی مائل کھجوریں برآمد ہوئیں جو چکھائی گئی کھجور سے کم میٹھی تھیں۔ پتھارے والا گاہک کو ہر طرح سے مطمئن کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کے بہ قول عام طور سے دکان دار جو کھجور دکھاتے ہیں گاہک کو ویسی ہی کھجور دی جاتی ہے۔ ڈھیر میں کچھ چھوٹی بڑی کھجوریں مکس ہوجاتی ہیں جن کا دکان دار کو بھی پتا نہیں ہوتا۔

بازار میں آنے والے مختلف افراد کے مطابق یہاں ’’دکھانا کچھ او ردینا کچھ‘‘ کی شکایت معمول کی بات ہے۔ بعض اوقات دکھائی گئی کھجور دو انچ لمبی ہوتی ہے، لیکن گھر پہنچنے پر لفافے میں سے زیادہ تر ایک انچ لمبی کھجوریں برآمد ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ کھجوروں کو پُر کشش بنانے کے لیے ان پر تیل لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی سطح چمک دارہوجاتی ہے اور وہ یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے وہ اپنے شیرے کی وجہ سے چمک رہی ہیں ۔ ان کھجوروں کو ہاتھ لگانے پر چکنائی کا احساس ہوتا ہے تاہم پانی سے دھلنے کے بعد ان کی سطح کی چمک ختم ہو جاتی ہے اور پانی خشک ہونے پر وہ پہلے جیسی پرکشش نظر نہیں آتیں۔

ٹین کے کنستر، چٹائی اور گتّے کے ڈبّے میں مال کی آمد

اس بازار کا تفصیلی جائزہ لینے کے دوران یہ نظر آیا کہ یہاں مختلف علاقوں سے مال مختلف اندازاور طریقوں سے آتاہے۔بعض اوقات ٹین کے کنستر گاڑی سے اترتے نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے مختلف دکانوں میں رکھے ٹین کے کنستر دیکھے جاچکے تھے۔ معلومات کرنے پر پتا چلا کہ پنجگور اور ایران کا مال عموماً کنستروں میں آتا ہے۔ ان کنستروں کے منہ رانگے کو گرم کرکے لگانے سے بند کیے جاتے ہیں۔

بعض دکانوں پر گتّے کے ڈبّوں اور لکڑی کی پیٹیوں میں مال آتے ہوئے دیکھا گیا۔ بتایا گیاکہ عموماً سکھرسے کھجوریں اسی طرح آتی ہیں۔ پلاسٹک کی بوریوں (کٹّے) میں بند کھجوروں کی بابت سوال کرنے پر جواب ملا کہ تربت سے کھجوریں اسی طرح کی پیکنگ میں آتی ہیں۔ بہت دور دراز علاقوں کا مال عموماً چٹائیوںمیںلپیٹ کر بھیجا جاتا ہے۔ جس علاقے میں پیکنگ کے لیے جو چیز آسانی سے دست یاب ہوجاتی ہے وہ استعمال کرلی جاتی ہے۔

کاروا، جان شور، مضافتی، گھونگنا

مختلف علاقوں میں کھجوروں کے نام مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں تربت سے آنے والی ایک قسم کی کھجور کا نام ’’بیگم جنگی‘‘ بتایا گیا۔ اس کے علاوہ وہاں سے ’’حسینی‘‘ نام کی بھی ایک کھجور آتی ہے۔ مشکے سے ’’کاروا‘‘، پنجگور سے ’’مضافتی،’’کاروا‘ جان شور‘‘، ایران سے ’’زردان‘‘ اور ’’مضافتی‘‘ نامی کھجوریں اور دیگر علاقوں سے ’’گھونگنا، روغنی، پشینا، ٹوٹا، اہوار‘‘ نام کی کھجوریں آتی ہیں۔

پاکستان کی ایک قسم کی کھجور ’’گلتی‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ مکس کھجور ہوتی ہے ۔اس سے چٹنی بنتی ہے اور اسے ٹماٹو کیچپ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بتایا گیا کہ ملک میں تیار ہونے والے زیادہ تر ٹماٹو کیچپ میں ’’گلتی‘‘ بڑی مقدار میں استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح کھجور کے شیرے سے کھانسی کی دوا تیار کی جاتی ہے۔ گردے میں پتھری کی شکایت ہونے پر کھجور کا استعمال مفید بتایا گیا۔اس ضمن میں بہ بہ طورِ خاص ’’بیگم جنگی‘‘ کا نام لیا گیا۔

قیمت اور معیار کے تعیّن کے پیمانے

کھجور بازار میں رنگ اور شکل میں تھوڑے فرق سے کھجوروں کے مختلف نرخ سننے کوملے۔ چناں چہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کھجوروں کا معیار اور نرخ مقرر کرنے کے کون سے پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ اس ضمن میں کوئی باقاعدہ پیمانے نہیںہیں۔ چند ایک بڑے تاجروں نے مل کر رسمی سی غیر رجسٹرڈ ایسوسی ایشن بنائی ہوئی ہےجو نرخ کے تعیّن مبں کبھی کبھار کوئی رہنمائی کردیتی ہے ۔

بہ صورتِ دیگر دکان دار اور بیوپاری خود ہی نرخوں کا تعیّن کرتے رہتے ہیں۔ ایک دکان دار کے بہ قول کھجور کے جلد یا بہ دیر خراب ہونے کی خاصیت، اس کا ذائقہ اور رنگ اس کے معیار کا تعیّن کرتا ہے۔ بہترین قسم کی کھجور وہ ہوتی ہے جو ایک سال تک رکھنے کے باوجود خراب نہ ہو۔ دراصل ایسی کھجور کے اندر موجود شیرہ پوری طرح تیار ہو کرگودے میں جذب ہوچکا ہوتا ہے اور بہتا نہیں ہے۔ انجذاب کا یہ عمل کھجور کو زیادہ عرصے تک صحیح حالت میں رہنے کی طاقت دیتا ہے۔

مختلف دکان داروں اور ٹھیلے والوں سے گفتگو کے نتیجے میں یہ اندازہ ہوا کہ بہت سی کھجوریں دراصل ایک ہی قسم کی ہوتی ہیں، لیکن ان کے مختلف رنگوں ،لمبائی اور موٹائی کی وجہ سے دکان دار انہیں مختلف درجوں میں تقسیم کرکے ان کے علٰیحدہ علٰیحدہ نرخ مقرر کردیتے ہیں۔ عام طور پر سے گاہک چوں کہ اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتا لہٰذا وہ ہر ڈھیر کی کھجور کو علٰیحدہ قسم کی تصوّر کرتا ہے۔

ایران اور سعودی عرب کا مال

اس بازار میں تربت، پنجگور، مشکے، سکھر اور خیرپور سے زیادہ تر مال آتا ہے۔ بیرون ملک سے سب سے زیادہ ایران پھر عراق او پھر سعودی عرب سے کھجوریں آتی ہیں۔ پاکستان کو کھجور کی پیداوار کے علاقوں میں پہلے نمبر پر مکران کے درج بالا علاقوں اور پھر سکھر اور خیرپور کا نمبر آتا ہے۔ اس بازار میں سب سے مہنگی کھجوریں ایران اور پنجگور کی بتائی گئیں۔

ایران کی کھجوریں سیاہی مائل اور بڑی بڑی ہوتی ہیں۔ سکھر اور خیرپور کی کھجوریں سرخی مائل ہوتی ہیں۔ سکھر اور خیرپور میں اگنے والی ’’اصیل‘‘ پاکستانی کھجوروں میں سب سے مہنگی ہوتی ہے، اس کے بعد تربت میں اگنے والی ’’بیگم جنگی‘‘ کا نمبر آتا ہے۔

کھجور کی پیداوار۔ ایک نظر

کھجور کے درخت کے آثار زمانۂ قبل از تاریخ میں بھی ملے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عرب کے مشرقی حصّےمیں یہ درخت چار ہزار قبلِ مسیح میں موجود تھا۔ کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے عراق اور ایران کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کا بھی نام ہے۔ کھجور کے غیر معمولی معیار اور پیداوار کے لحاظ سے عراق کے شہر بصرہ کا نام پوری اسلامی دنیا میں مشہور ہے۔ عراق میں چند برس قبل تک کھجور کے درختوں کی تعداد تقریباً دوکروڑبیس لاکھ تھی جن سے سالانہ چھ لاکھ ٹن کھجوریں حاصل ہوتی تھیں۔

سعودی عرب میں 1980ء کے بعد کھجور کی پیداوار بڑھانے، اس کے استعمال کو فروغ دینے اور اس شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ کھجور اگانے والوں کو زرتلافی دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا، جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جانے لگا اور سرکاری سطح پر یہ حکم نافذ ہوا کہ سرکاری ضیافتوں میں کھجور اور اس سے تیار شدہ پکوان بھی ضرور شامل کیے جائیں۔ 1980ء سے قبل وہاں کھجور کے درختوں کی تعداد ایک کروڑدس لاکھ تھی جن سے سالانہ پانچ لاکھ ٹن کھجوریں حاصل ہوتی تھیں۔ تاہم اب یہ اعدادو شمار تبدیل ہوچکے ہیں اور اب وہاں عمدہ، پراسیسڈ اور پیک کھجوریں بھی با آسانی مل جاتی ہیں۔ وہاں کی وزارتِ زراعت کھجور اگانے والوں کو تربیتی کورس کراتی ہے اور سرکاری معیار کے مطابق کھجور اگانے والوں کو نقد انعام دیا جاتا ہے۔

ایران نے خطّے کے حالات اور اقتصادی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ عرصے میں کھجوروں کی پیداوار، پیکجنگ اور برآمد پر خاص توجہ دے کر قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔ ایران کےچودہ صوبوں میںچارسو اقسام کی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں۔ 1997ء میں وہاں اس مقصد کے لیے 230 ہزار ہیکڑز رقبہ استعمال ہو رہا تھا اور اس وقت اس کی کھجور کی برآمدات سالانہ 59.3 ہزار ٹن تھی۔

تاہم حالیہ برسوں میں ایران کی کھجور کی برآمدات نو لاکھ میٹرک ٹن سے تجاوز کرچکی ہیں۔ دنیا میں پیدا ہونے والی کل کھجور کابیس فی صد حصہ ایران میں اُگتا ہے۔ یہ ملک سالانہ دو لاکھ ٹن خشک،چھ لاکھ ٹن نیم خشک اوردولاکھ ٹن تازہ کھجوریں پیدا کرتا ہے۔ جو ایک لاکھ اسّی ہزار ہیکڑز رقبے پر اُگتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کرمان، بُوشہر، خوزستان، فارس، سیستان بلوچستان، یزد، کرمان شاہ، ہرمزگان اور سمنان نامی صوبوں میں اُگائی جاتی ہیں۔