مودی کے جرائم کو استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا

April 18, 2021

تحریر:سفیان وحید صدیقی۔۔۔کراچی
دنیا یہ بہ خوبی جان چکی ہے کہ مسئلہ کشمیر جو1947سے عالمی مسئلہ بناہوا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے عالمی ادارہ یعنی اقوام متحدہ سےاُس وقت رابطہ کیا گیا جب تقسیم ہند کے وقت یہ تنازع کھڑا ہوا تھا۔ وہاں کی اکثریتی آبادی نے برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے خطے کے لحاظ سےیہ فیصلہ کیا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے دوقومی نظریہ کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا پسند کریں گےجو کہ نہ صرف اس وقت بلکہ اب بھی وہاں کے عوام کی یہی آواز ہے۔وہاں74 سال سے بھارتی جبری قبضے نے عوامی اُمنگوں کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دی ہے ۔ایسے میں نریندر مودی قیادت کے کئے جانے والے جرائم کو مذاکرات کے نام پرعالمی استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا ہے۔انڈیا قوانین کے تناظرمیں ملزم بن چکا ہے جس نے UN قرارداروں اور دیگرعالمی قوانین کو بے اثر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے فیصلوں کی توہین کی ہے ایسے میں مذاکرات کے بجائے انڈیا کو بطور ملزم عالمی عدالت برائے انصاف کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنا ہوگا ۔مقبوضہ کشمیر میں جو نا حق خون انسانیت کا بہایا گیا اب اس کاحساب لینے کا وقت آگیا ہے ۔انڈیا کے مظالم پرسکھ بھی اب سراپا احتجاج ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے متعلق وہاں کے عوام کے آزاد استصواب رائے کے ذریعے جوفیصلہ ہوگا وہی قابل قبول ہوگا اور وہی عین جمہوری قوانین کی روشنی میں رہتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جانب سے اپنے مستقبل سے متعلق عوامی فیصلے کی عکاسی کرے گا۔ انڈیا نے 1947-48 میں اقوام متحدہ کو دھوکا دیا اور وہ وعدہ جوخود انڈیا نے UNسے کیا اس سے مکھر گیا ۔ اس کے ساتھ وہاں مجرمانہ کارروائی شروع کر دی یعنی کشمیری مسلمانوں کا قتل عام ، نوجوانوں کی جبری قید و بند اور خواتین کی عزتوں کو پامال کرنے جیسا سنگین جرم کیا جو آج بھی تسلسُل سے جاری و ساری ہے ۔ انڈیا کی یہ کارروائیاں نہ صرف عالمی قوانین کےخلاف مجرما نہ عمل ہے بلکہ انڈیا اس حد تک کو بھی پہنچ گیا ہے کہ اُس نے جنیوا کنونشن کے بر خلاف جاتے ہوئےمقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کوختم کرنے کے لئے وہاں نئی حلقہ بندیاں کیں ،ساتھ مقبوضہ کشمیر میں نئی آباد کاری کا سلسلہ شروع کردیا ہے جو مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کر دینے کی مترادف ہے۔ انڈیا کے ہتھکنڈے عالمی قوانین کے تو خلاف ہیں ہی ساتھ یہ عمل انڈین ہندو کی اس سوچ عکاسی کر رہا ہے جو 1947 سے پہلے مسلم ہندو فسادات کی وجہ بنی تھی جہاں برِصغیر پرقبضے کے خوب دیکھنے والے ہندومسلمانوں استحصال کرتے آرہے تھے ۔ سو مسلمانوں کے تحفظ کے لئے یہ لازم ہوگیا تھا کہ وہ اپنے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کریں۔یہی وجہ تھی 23مارچ 1940کو منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس عام میں دو قومی نظریئے پر مشتمل علیحدہ وطن کے قیام کے لئے تاریخی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی گئی۔ تب قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں دو قومی نظریہ کی سچائی اور حقیقت کو دیکھتے ہوئے Brithish Empire نے ہندو اورمسلمان کے بنیادی فرق کو سمجھا اور وہ یہ فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوگئے کہ Two Nations Theory مسلمانانِ ہندکو اپنے مستقبل کا فیصلہ کر نے کے لئے ایک جمہوری راستہ فراہم کرے گا اور خطے میں بسنے والے عوام اپنا جمہوری فیصلہ آزاد رائے سے کریں۔اب مقبوضہ کشمیر کے عوام ایک بار پھر UN سمیت UK َ ،USA اور دیگر ممالک سے یہ اپیل کر رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں کو اُن کا حقِ خود ارادیت دیاجائے اورانہیں اقوامِ متحدہ کی منظورکردہ قرارداروں کی روشنی میں استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی یہ مانگ ہے کہ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر سے انڈین قابض فورسز کا انخلاء کروائے اور UN اَز خود استصواب رائے کروائے۔ انڈیا کا آج بھی مقبوضہ کشمیر سمیت اندرونِ انڈیا میںمسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہے اُس سے یہ مزیدواضح ہوگیا ہےکہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں۔ انڈیا میں سکھ بھی اپنے مستقبل کے تحفظ کے لئے ایک آزاد ریاست کی مانگ دنیا کے سامنے رکھ چکے ہیں۔ جو کچھ حالیہ دنوں میں اندرونِ انڈیاسکھوں کے ساتھ ہوا وہ دنیا کے لئے ہندوازم کی جارحیت کی کھلا ثبوت ہے۔ پاکستان نے اپنے مشرق و مغرب میں امن کوبحال اور قائم رکھنے کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں چاہے معاملہ مقبوضہ کشمیر کا ہو یا پھر افغانستان میں قیام امن کا ہو پاکستان کا اصولی موقف رہا ہے۔ جہاں مقبوضہ کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کی جانب اُمید کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں وہاںمقبوضہ فلسطین کے بھی عوام بھی مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے لئے اقوام متحدہ سے محوالتجا ہیں۔