مغرب سے درست مطالبہ

April 19, 2021

دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بالکل درست طور پر اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ حضور اکرمﷺ مسلمانوں کے دلوں میں بستے ہیں لیکن انتہا پسند مغربی سیاستداں آزادیٔ اظہار کے نام پر پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی کے اقدامات کی حمایت کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں تاہم آزادیٔ اظہار کی آڑ میں توہینِ رسالتؐ کو برداشت نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ہولو کاسٹ کی طرح رسول پاکؐ کی شان میں گستاخی کو بھی قابلِ سزا جرم قرار دیا جانا چاہئے۔ تحریک لبیک پر پابندی کے فیصلے کی وجہ بتاتے ہوئے وزیراعظم نے صراحت کی اس کی جانب سے ریاست کی عمل داری کو للکارے جانے اور گلی کوچوں میں فساد برپا کیے جانے کی بنا پر انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت یہ قدم اٹھانا ضروری ہو گیا تھا۔ صورت حال کو سمجھنے کے لئے اس پس منظر کا نگاہ میں رہنا ضروری ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں فرانس کے صدر ایما نوئیل میک خواں کی جانب سے قابلِ اعتراض خاکوں کی اشاعت کے ذریعے سے خاتم الانبیاء ﷺ کی شان میں گستاخی پر کسی کارروائی کے بجائے آزادیٔ اظہار قرار دیتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی تو مسلمانانِ عالم نے اس پر سخت ردِعمل ظاہر کیا، پاکستان میں بھی فرانس کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا اس کے سفیر کو واپس بھیجنے کا مطالبہ ہوا۔ تحریک لبیک نے اس احتجاج میں قائدانہ کردار ادا کیا اور حکومت پاکستان سے اس کا یہ معاہدہ طے پایا کہ فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے کے لئے تین ماہ میں قانون سازی کرکے یہ کارروائی عمل میں لے آئی جائے گی۔ تحریک لبیک کا حالیہ احتجاج اس معاہدے پر عمل درآمد کے لئے تھا لیکن بظاہر دو طرفہ غلطیوں کے باعث لاقانونیت اور فساد میں بدل گیا اور حکومت نے تحریک کو خلاف قانون قرار دینے کا فیصلہ کیا۔یہ اقدام آئینی طور پر کتنا درست ہے، ماہرین قانون کی اس پر مختلف آراء ہوسکتی ہیں۔ تاہم جہاں تک مغربی دنیا سے وزیر اعظم کے اس مطالبے کا تعلق ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی کو اسی طرح ممنوع اور قابلِ سزا قرار دیا جائے جیسے ہولو کاسٹ کے خلاف لب کشائی کو قرار دیا گیا ہے تو اس کا جائز اور معقول ہونا بالکل واضح ہے اور تمام مسلم حکومتوں کو اس مطالبے کو منوانے کے لئے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ شانِ رسالت مآبؐ میں گستاخی کے منظم سلسلے کے پیچھے کار فرما اصل سازشی منصوبے کا مؤثر توڑ بھی ضروری ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا جو نظریہ آج مغربی دانشوروں اور حکمرانوں کے اعصاب پر سوار ہے اس کے مطابق مغربی تہذیب کو آج دنیا کی جس واحد تہذیب سے خطرہ ہے وہ اسلام ہے۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے اسلام کو دہشت گردی کا علم بردار قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا، اسی حکمت کے تحت گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کرکے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کا اہتمام بھی ہوا تاکہ جب اس پر احتجاج ہو تو مسلمانوں کو برداشت سے عاری اور دہشت گرد قرار دیا جا سکے لہٰذا اس حربے کا صحیح توڑ جھوٹے پروپیگنڈے کے جواب میں اسلام کی اصل تعلیمات کو پیش کرنا ہے۔ اسلام مخالف پروپیگنڈہ ہدف بننے والوں میں ہمیشہ تجسس کا سبب بنتا ہے اور انہیں اصل حقائق سے آگاہ کرکے اسلام کے نظام عدل و رحمت کا اسی طرح معترف بنایا جاسکتا ہے جیسے رسول کریم ؐ نے اپنے خلاف سخت گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار بنائے جانے والوں کے دل جیت کر سرزمین عرب کو اسلام کی روشنی سے منور فرمادیا تھا۔نبی پاک ؐ کا یہ اُسوہ آج بھی ہمارا رہنما ہے اور مسلم دنیا اسے اپنا کر اسلام سے بدگمان کردیے جانے والے اہلِ مغرب کو اسی طرح اپنا بناسکتی ہے جیسے یورش تاتار کے بعد ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا حیرت انگیز واقعہ پیش آیا تھا۔