جی بی کی آئینی حیثیت اورعوامی حقوق

April 21, 2021

تحریر: پرویز فتح۔ لیڈز
گلگت بلتستان، متحدہ کشمیر کے شمال میں واقع ایک اِیسا حسین و جمیل خطہ ہے جسے ہم شمالی علاقہ جات کہا کرتے تھے۔ مجموعی طور پر یہ خطہ 72،496 کلو میٹر رقبہ پر مشتمل ہے اور یہاں کی آبادی تقریباً 15 لاکھ ہے، یہ خطہ اپنے دیو مالائی حسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور پھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے کسی جنت کے تصور سے کم نہیں لیکن اُس کے قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ اُس کی جغرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ دے۔ اس کا بارڈر آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا، افغانستان، چین، تاجکستان، جموں کشمیر اور لداخ سے ملتا ہے، معاشرتی علوم میں پڑھائی جانے والی شاہراہ قراقرم اور اب مستقبل کا معمار سمجھا جانے والا سی پیک بھی یہیں سے گزر کر پاکستان پہنچتا ہے جس نے گلگت بلتستان کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا ہے، گلگت بلتستان، چین،پاکستان اقتصادی راہ داری کے دروازے کے اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ یہاں بسنے والے لوگوں کا دارومدار مجموعی طور پر سیاحت، زراعت اور باغبانی پر ہے، لوگ بہت محنتی، جفاکش اور محبت کرنے والے ہیں، گلگت بلتستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1845-1846 کی اینگلو سکھ جنگ کے زمانے میں سکھ ایمپائر کا گلاب سنگھ جموں کا حاکم تھا، جب متحدہ ہندوستان میں برطانوی سامراج سے آزادی کی جنگ زوروں پر تھی تو دیگر جابر حاکموں، بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں اور سرداروں کے طرح وہ بھی بڑا مکار نکلا اور اس نے اپنے وطن اور شہریوں سے غداری کرتے ہوئے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خوشنودی اور حمایت کا راستہ اپنایا اور سازش کے تحت غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا، گلاب سنگھ کی اس وفاداری کے صلے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1846 میں اسے کشمیر ساڑھے سات ملین روپوں کے عوض بیچ دیا، خریدوفروخت کے اس معاہدے کے تحت گلاب سنگھ جمو و کشمیر کا مہا راجہ بن گیا، خطے کی جغرافیائی اہمیت کی پیشِ نظر برطانوی سامراج نے گلگت کو دوبارہ اپنے ہاتھ میں لے کر گلگت ایجنسی قائم کر دی تا کہ اُسے براہ راست کنٹرول کر سکے اور بعد ازاں 1935 میں برطانوی سامراج نے ڈوگرہ راج کے حکمرانوں سے گلگت کو 60 سال کی لیز پر لے کر گلگت ایجنسی کا کنٹرول سنبھال لیا جب کہ بلتستان ریجن بدستور ڈوگرہ راج ہی کے کنٹرول میں رہا۔ برطانوی سامراج نے برصغیر کی آزادی سے دو ہفتے قبل، 30 جولائی 1947 کو ڈوگرہ راج کے زیر کنٹرول ریاست جمو و کشمیر کو گلگت کا کنترول دوبارہ سنبھالنے کے پیشکش کر دی اور یکم اگست 1947 کو گلگت ایجنسی کا چارج ڈوگرہ راج کے بریگیڈیئر گھِنسارہ سنگھ کے حوالے کر دیا، برصغیر کی آزادی کے بعد 1948 میں گلگت بلتستان کے عوام نے ڈوگرہ راج سے بغاوت کر دی اور اپنی آزادی کے لیے باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا، اس زمانے میں پاکستان کا دارالخلافہ کراچی تھا، گلگت بلتستان کے عوام نےاپنے زور بازو سے آزادی کی جنگ لڑی اور کامیاب ہوئے، پاکستان نے پہلے پہل تو اس کا الحاق آزاد کشمیر کے ساتھ کر دیا لیکن بعد ازاں معاہدہ کراچی کے تحت آزاد کشمیر کی انتظامیہ نے گلگت بلتستان کو پاکستان کے حوالے کر دیا۔ 1970 سے وہ شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جانے لگا اور ایک طویل عرصہ تک انگریز سامراج کے بنائے ہوئے بدنامِ زمانہ ایف سی آر نامی قانون کے تحت چلایا گیا، اس طرح گلگت بلتستان کے عوام کو نہ کوئی پاکستان کے قانون کے تحت حقوق اور تحفظ مل سکا اور نہ ہی کشمیر جتنے حقوق مل پائے، چین،پاکستان اقتصادی راہ داری کی بدولت گلگت بلتستان میں پاکستان کی جانب سے اب ایک صوبائی نظام تو نافذ کیا گیا ہے اوران کا اپنا گورنر اور وزیرِ اعلیٰ بھی ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہاں کے عوام اور علاقے کو قانونی اعتبار سے وہ آئینی حقوق حاصل نہیں جو ملک کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں،مقامی لوگوں کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا کہ گلگت بلتستان کےعوام کو پاکستانی عوام کے مساوی آئینی اور قانونی حقوق دئیے جائیں۔2009 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اصلاحات کر کے کچھ قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی، لیکن وہاں کے شہریوں کو آج تک پاکستان کے دستور میں دئیے گئے حقوق نہ مل سکے، اس لیے آج تک وہاں کے شہریوں کی دستوری و سماجی حیثیت کا تعین نہ کیا جا سکا،اب سی پیک کے بعد نئی صورتحال اُبھر کر سامنے آئی ہے اور چین کو اندیشہ ہے کہ امریکی سامراج انڈیا کو گلگت بلتستان میں مداخلت پر اکسا کر سارے سی پیک منصوبے کو مفلوج کر سکتا ہے، اِس لیے پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ گلگت بلتستان کو محدود حد تک پاکستان میں ضم کرنے کا عندیہ دے چکی ہے،بائیں بازو کی عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان جو خطے کی نسبتاً نئی سیاسی جماعت ہے، خطے کو پاکستان کا عبوری صوبہ بنانے کے حق میں ہے اور گلگت بلتستان اسمبلی کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کر رہی ہے کہ خطے کو اقوام متحدہ کی 1949 اور 1951 کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کے حل تک داخلی خود مختاری دی جائے اور ایک بااختیار آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جائے، جسے تمام امور پر قانون سازی کا مکمل اختیار حاصل ہو اور وہ خطے کے لئے آئین مرتب کرے۔ بدلتے ہوئے حالات میں امید کر سکتےہیں کہ آنے والے دِنوں اور برسوں گلگت بلتستان کی آئینی اور قانونی حیثیت کا تعین ہو گا وھاں کے عوام کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق بحال ہوں گے اور وہاں کے عوام اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو روشن بنائیں گے۔