میں اور مجلس ترقی ادب

April 23, 2021

مجلس ترقی ادب کے قیام کے پانچ مقاصد اس کے آئین میںبیان کئے گئے ہیں (1)کلاسیکی ادب شائع کرنے کا مناسب اہتمام۔(2)ادب عالیہ کی تشکیل میں معاونت(3)ادب عالیہ کے تراجم۔ (غیر ملکی زبانوں سے اردو میں اور اردو سے غیر ملکی زبانوں میں )۔(4)ہر سال بہترین ادبی مطبوعات کے مصنّفین کو انعام۔(5)سال کے بہترین مضامین اور منظومات پر انعام۔لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ماضی میں مجلس سے وہ کام نہیں لیا گیا جس کےلئے اس کاقیام عمل میں آیا تھا۔ کلاسیکی ادب شائع کیا گیا مگر ایک عجیب و غریب مذاق کے ساتھ۔ ڈیڑھ سو صفحے کی کتاب کے ساتھ چھ سات سوصفحات کا دیباچہ شامل کرلیا گیا۔جو دوسرا مقصد تھا۔ ’’ادب عالیہ کی تشکیل میں معاونت‘‘اس پر کسی نے کام ہی نہیں کیا۔ تیسرا مقصد تھا ، ادب عالیہ کے تراجم۔ اس میں ستر فیصد ایسی کتابیں شامل ہیں جن کا ادب سے کوئی تعلق نہیں، چوتھا اور پانچواں مقصد تھا۔ اچھے ادب کی تخلیق پرانعام دینا۔ یہ سلسلہ ایک طویل عرصہ سے رکا ہوا ہے۔

میں جب دفتر میں داخل ہوا تو بھوت بنگلے کا تصور ذہن میں آیا جسے روشنی ، ہوا اور خوشبو سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس ادارے نے پانچ سوکتابیں چھاپ رکھی تھیں مگر کہیں اور تو کجا دفتر میں بھی کوئی ڈسپلے سنٹر نہیں تھا۔اسٹورز میں ایک لاکھ پچیس ہزار کتابیں بند پڑی تھیں ،گرائونڈ فلور کی اتنی بری حالت کہ ڈائریکٹر سمیت کسی کمرے میں کسی کا بیٹھنا بھی ممکن نہیں تھا۔مجھے سانس لینا مشکل لگا۔ پہلے فلور پر گیا تو وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ پتہ چلا برس ہا برس سے تالا لگا ہوا ہے اس میں صرف ٹوٹی پھوٹی چیزیں پڑی ہیں۔ اوپر والے فلور میں لائبریری تھی۔ پتہ چلا کہ یہ لائبریری بھی پچھلے آٹھ سال سےبند پڑی ہے اورمجلس کےملازمین اسی لائبریری کو دفتر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

سو نئے سرے سےکام کا آغاز کیا۔ پہلے گرائونڈ فلور پر توجہ دی۔ ڈسپلے سنٹر کےلئے جگہ نکالی۔ دیواریں مرمت کرائیں فرش درست کرائے۔ رنگ روغن کرایا۔ اسے اس قابل بنایا کہ کوئی یہاں آ کر کچھ دیربیٹھ سکے۔ فرسٹ فلور کو دفاترمیں تبدیل کیا۔ ملازمین کو بیٹھنے کی جگہ فراہم کی۔ یعنی لائبریری سے کچھ لوگ فرسٹ فلور پرمنتقل کئے ،کچھ لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ اسٹور میں بنائی۔ نوکری سے صرف ایک آدمی کو نکالا جوساٹھ ہزار کے قریب تنخواہ لیتا تھا اورپچھلے پانچ سال سے کبھی دفتر نہیں آیا تھا۔ بیس کتابیں پرنٹنگ پریس بھجوائیں ،یہ وہ کتابیں تھیں جن کی مارکیٹ میں ضرورت تھی لیکن یہ ہمارے پاس ختم ہوچکی تھیں۔ ای بک کی تیاری شروع کرائی۔ اس ای بک ٹیبلٹ میں دس ہزار کتابیں شامل ہونگی۔ ۔پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ ایم او یو کیا جس میں بین الاقوامی ترقی ادب کانفرنس کا انعقاد شامل ہے۔ پچاس لاکھ روپے پنجاب یونیورسٹی نے اس کےلئے مختص کئے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی، انہوں نے کانفرنس میں شرکت کا وعدہ کیا۔ان شااللہ کورونا کے ختم ہوتے ہی اس کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔ اسی کانفرنس میں رائٹرز کو اس سال کے ایوارڈ بھی دئیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی میںجو چوبیس ہزار کلاسیکی کتابوں کے قلمی نسخے پڑے ہیں۔ یونیورسٹی وہ ہمیں فراہم کرے گی اور ہم ان کی اشاعت کا بندوبست کریں گے۔ اگلے ہفتے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے بھی ایک ایم او یو پر دستخط کئے جانے ہیں۔ جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی خود مجلس کے دفتر میں آئے اور انہوں نے مجلس کے ساتھ مل کر ترقی ادب کےلئے کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ایک اور کام شروع کرایا کہ کتاب کی اشاعت پر تو ہم خرچ کرتے ہیں مگر اس کی پبلسٹی پر ایک روپیہ بھی نہیں لگاتے۔ یو ٹیوب کےلئے کتابوں پر تبصروں کے ویڈیو ز بنوانے شروع کئے ہیں۔ ایک معیاری ویب سائٹ بنوائی ہے۔ جہاں مجلس کی کتابیں فروخت ہونگی۔ مجلس کی لائبریری کی الماریوں میں پڑے ہوئے بے شمارقلمی نسخوں اور مسودات کو چوہے کھا چکے تھے ،دیمک چاٹ تھی۔ ان کے لئے دو مخطوطہ شناس پروفیسر باقر علی شاہ اور پروفیسر شفیق احمد خان کو باقاعدہ ہائر کیا۔ وہ تقریباً پندرہ دن سےاسی کام میںلگے ہوئے ہیں۔ بے شمار قیمتی چیزیں ضائع ہوچکی ہیں مگر بہت کچھ بچانے میں ہم کامیاب ہو گئے ہیں۔ علاوہ ازیں لائبریری کی کتابوں کو محفوظ بنانے کےلئے اس کے ارد گرد شیشے لگوانے کا کام بہت ضروری ہے۔ یہاں ایک فیومی گیشن مشین بھی ہے جس سے گزارنے کے بعد کتابیں دو سو سال کےلئے محفوظ ہو جاتی ہیں۔ وہ مشین عرصہ دراز سے خراب پڑی تھی اسے مرمت کرایا اور کتابوں کی فیومی گیشن شروع کرائی۔ یہاں پچھلے ستر سالوں میں جو پانچ سو کتابیں چھاپی گئی ہیں ان میں شاید ایک بھی رائٹر ایسا نہیں جس کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہو۔ اس لئے میں نے درخواست دی ہے کہ ہمیں جنوبی پنجاب میں مجلس ترقی ادب کی ایک شاخ بنانے پر کام شروع کرناچاہئے۔

اسی سال یونیسکو کی طرف سے لاہور کو سٹی آف لٹریچر کا اعزاز ملا ہے۔ مجلس کے قیام کے دوسرے اہم ترین مقصد ’’ادب عالیہ کی تشکیل یعنی تیاری میں معاونت۔‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ یہاں ادیبوں شاعروں کےمل بیٹھنے کیلئے، ادبی موضوعات پر گفت و شنید کرنے کےلئے ایک ادبی چائے خانہ بنایا جائے۔ جو بہت آرٹسٹک ہو۔اس سلسلے میں سید بلال حید ر، جو سوشل سیکورٹی پنجاب کے کمشنر ہیں، نے بہت ساتھ دیا۔ اس کے چلانے کےلئے ڈاکٹر امجد ثاقب نے اخوت کی طرف سےفنڈنگ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے چیئرمین قیصر بریار نے ایوارڈ کےلئے اپنے گروپ کی طرف سے دس لاکھ روپیہ سالانہ فراہمی کا وعدہ کیا۔گوگرین ویلفیئر سوسائٹی کی صدر عاصمہ فرہاد بھی ہمارا ساتھ دے رہی ہیں، ڈیزائننگ میں الحمرا آرٹس کونسل سے ماہ رخ نوید نے ہمارے لئے بہت کام کیا۔ وزیر جنگلات سبطین خان بھی آئے ،انہوں نے ادبی چائے خانہ میں بڑی دلچسپی لی ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھی دفتر کا وزٹ کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جیل خانہ جات میں لائبریریز بنانے کےلئےہر ممکن امداد کاوعدہ کیا۔ پنجاب کے وزیر ثقافت میاں خیال احمد کاسترو نے 22ملین روپے کے ایک پروجیکٹ کی منظوری دی۔ ان تمام معاملات کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو نہ دینا ناانصافی ہو گی۔ بہرحال مخیر حضرات سے اس سلسلے میں مزیدمعاونت کی درخواست ہے۔