دے جا سخیا راہِ خدا

April 23, 2021

ہمارے ہاں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اگرچہ خود بےروزگار ہیں، ان کی روزی روٹی کا کوئی وسیلہ نہیں مگر ان میں خدمتِ خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ میں نے اُن کے لئے ایک پلان تیار کیا ہے جس پر عمل کے نتیجے میں روزی روٹی تو کیا وہ دولت میں کھیلنا شروع کردیں گے۔ انہیں چاہئے کہ پہلے مرحلے میں وہ ایک فلاحی تنظیم کا اعلان کریں، جو غریبوں کے بچوں کو مفت تعلیم مہیا کرے گی، ایک اعلیٰ درجے کا اسپتال بھی قائم کریں کہ جہاں کینسر سے لے کر نزلے زکام تک کا علاج مفت ہوگا۔ ظاہر ہے اس کے لئے بہت بڑی رقم درکار ہوگی جو آپ کے پاس نہیں ہے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، ہمارے ہاں مخیر لوگ لاکھوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں، بس ان تک رسائی حاصل کرنے اور انہیں قائل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام اگرچہ خود بےشمار وسائل مانگتا ہے لیکن میری پلاننگ کے مطابق یہ کام بہت کم پیسوں میں ہو سکتا ہے۔

مثلاً ایک کام آپ کو یہ کرنا ہوگا کہ صرف ایک ٹانگہ اور ایک لائوڈ اسپیکر کرایہ پر لینا ہوگا، آپ صبح ٹانگے پر سوار ہوں اور بہت درد بھرے انداز میں ان غریبوں کی صورت حال بیان کریں جن کے بچے اپنی غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں اور علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آپ نے بچپن میں یا شاید آج کل بھی کہیں نہ کہیں کسی نابینا کو ‘‘دے جا سخیا راہ خدا، تیرا ﷲ ہی بوٹا لاوے گا‘‘ درد بھری آواز میں گاتے اور بھیک مانگتے دیکھا ہوگا، آپ نے لائوڈ اسپیکر پر یہ لفظ نہیں دہرانے بلکہ مجھ ایسے کسی بڑے رائٹر سے مناسب معاوضہ پر اسی نوعیت کا لیکن بےحد موثر اعلان لکھوا کر گلی گلی اور محلے محلے گھوم پھر کر لائوڈ اسپیکر پر دہرانا ہوگا، شام تک آپ کے جذبے سے متاثر ہو کر دو چار ہزار روپے تو کہیں نہیں گئے ہوئے، جب یہ رقم سال دو سال میں بیس پچیس لاکھ ہو جائے تو اخباروں میں اپنی تنظیم کا اشتہار دیں، جس میں کسی اداکار کو ہائر کرکے اس کی تصویر کے ساتھ اسے آپ کی تنظیم کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کا نہ کہیں بلکہ اس سے بھی یہ کہلوائیں کہ آپ جیسے نیک دل لوگوں کے تعاون سے تعلیمی ادارے کے لئے زمین حاصل کر لی گئی ہے اور ہاں اشتہار میں یہ عبارت بھی ضرور شامل ہو کہ یہ کام کسی سیاسی مفاد کے لئے نہیں صرف رضائے الٰہی کے لئے کیا جارہا ہے، چنانچہ عوام سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ ان اداروں کی تکمیل کے بعد ان کے بانی کسی سیاسی جماعت کی بنیاد نہیں رکھیں گے۔

ﷲ نے چاہا تو اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے آپ کو بہت سے انگلش اسپیکنگ، ماڈرن لڑکے اور لڑکیاں مل جائیں گے جو بڑے بڑے صنعت کاروں کے پاس (بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر) جائیں گے اور ان سے وصول ہونے والے عطیات میں سے 25فیصد رقم ان کی نذر کرکے آپ اپنے ایک مقصد یعنی ملک سے بےروزگاری ختم کرنے میں تو ابتدائی طور پر کامیاب ہو جائیں گے۔ ایک تجویز جو بہت شروع میں بیان کرنا چاہئے تھی وہ ایک این جی او بنانے کی تھی، جس کی بہت سی ماہرین ہمارے ہاں موجود ہیں، وہ آپ کی پارٹنرکے طور پر مختلف سفارتخانوں میں جائیں گی، انہیں اپنے مقاصد بیان کرنے کے علاوہ ان کے بھی کچھ مقاصد معلوم کرکے وسیع ترین بنیادوں پر تشہیری مہم چلائی جائے گی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے پاس اربوں روپے اکٹھے ہو جائیں گے۔

خدانخواستہ آپ ان باتوں سے کہیں اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ آپ یہ ساری رقم الم غلم کر جائیں گے، لاحول ولاقوۃ، آپ کچھ تاجروں کے اشتراک سے اسپتال بھی بنائیں اور تعلیمی ادارے بھی قائم کریں گے جن میں 25فیصد غربا کو مفت تعلیم اور مفت علاج کی سہولت دیں گے تاکہ باقی 75فیصد اخراجات اس سے پورے ہو سکیں، تاہم اسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں آنے والے صاحب استطاعت افراد کی آپ ایسی کھال اتاریں گے کہ آپ کی کئی نسلیں بغیر کچھ کئے عیش کی زندگی بسر کریں گی! میں آپ سے اس اسکیم کی کوئی داد باقاعدہ طے نہیں کرتا کیونکہ میں خود بھی آپ ہی کی طرح ایک درد مند انسان ہوں، جو دیں گے اگر مجھے ’’وارا‘‘ کھاتا ہوں لے لوں گا، ورنہ جو بنا سکتا ہے، وہ بنا بنایا کھیل بگاڑ بھی سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں بہت سی فلاحی اسکیموں کا ماسٹر مائنڈ میں ہی ہوں۔

میں آخر میں ایک بہت ضروری بات بھی کہنا چاہتا ہوں بلکہ یہ کالم لکھا ہی میں اسی غرض سے ہے اور وہ یہ کہ خدارا اس کالم سے پُرخلوص اور نیک نام، سچ مچ ﷲ کی رضا حاصل کرنے والی تنظیموں کے بارے میں اپنے دل میں شکوک و شبہات پیدا نہ کریں۔ اسی ملک میں ایدھی، چھیپا ٹرسٹ، ایس آئی یو ٹی، انڈس، ایک تنظیم جس کا نام یاد نہیں اس کے سربراہ ڈاکٹر حافظ اعجاز نفرالوجسٹ ہیں، آنکھوں کا ٹائون شپ لاہور میں اسپتال رحمت ﷲ لیٹرن، العین آئی اسپتال اور ڈاکٹر امجد ثاقب کے ’’اخوت‘‘ کے علاوہ بیسیوں فلاحی ادارے اپنا سب کچھ اس نیک کام میں لگائے ہوئے ہیں۔ ’’اخوت‘‘ کا تو میں خود ڈونر بھی ہوں۔ اس کے علاوہ صف اول کے ڈاکٹر، ڈاکٹر جاوید اکرم، ڈاکٹر اسد اسلم، ڈاکٹر خاور عباس، ڈاکٹر مسعود صادق اور کئی دوسرے طبیب ان سب کا مفت علاج کرتے ہیں جو فیس ادا نہیں کر سکتے۔ میں صرف چند تنظیموں کا نام لکھ سکا ہوں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری تنظیمیں فیک ہیں، مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ بہت سے ’’درد مند لوگ‘‘ میرے دیکھتے دیکھتے اپنے پروپیگنڈہ سے کروڑ پتی بن گئے ہیں، بس اُن سے ہوشیار رہیں۔