بلا عنوان

April 23, 2021

حکومت اور کالعدم قرار دی گئی تحریک لبیک پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پا چکا ہے۔ جس کے تحت فرانسیسی سفیر سے متعلق قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی، جہاں اس قرار داد پر بحث کے بعد طے پایا کہ اس میں اپوزیشن کی تجاویز پر گفت و شنید کے بعد آج بروز جمعہ پارلیمنٹ میں مزید بحث کی جائے گی اور اس متفقہ طے پا جانے والی قرارداد کو پاس کیا جائے گا۔ بہت اچھا ہوا کہ حکومتی کوششوں کے نتیجے میں وہ اذیت ختم ہو گئی جس کا پورا پاکستان تین دن شکار رہا۔ لیکن دیکھنا یہ بھی ہے کہ اس سارے قضیہ میں تحریک لبیک نے کیا حاصل کیا اور حکومت کو حسب منشاکیا کامیابی حاصل ہوئی اور کیا اس سارے جھگڑے کی بنیاد وہ اہم مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوا جو اس تحریک کے ابھرنے کا ذریعہ بناتھا اور پورے ملک کے لئے جو اہم ترین اور جذباتی اہمیت کا حامل ہے۔

اگر تحریک لبیک نے آخر کار اسی نکتہ پر اکتفا کرنا تھا تو پھر اتنا کچھ کرنے کی ضرورت کیا تھی، حکومت تو ویسے بھی سابقہ معاہدہ کے مطابق20اپریل تک پارلیمنٹ میں فرانسیسی سفیر کے بارے میں قرار داد پیش کرنے کی پابند تھی اور ایسا کرنے بھی جا رہی تھی یہ تو ’’ کھایا پیا کچھ نہیں ،گلاس توڑا بارہ آنے‘‘والا معاملہ ہو گیا۔تحریک لبیک نے کیا اپنے آپ کوکالعدم قرار دلوانے کیلئے اتنی کشٹ اٹھائی؟ اتنی جانیں ضائع ہوئیں ،املاک کو نقصان پہنچا۔ تحریک لبیک کا قائد گرفتار ہوا اور بھی کئی رہنمائوں اور کارکنوں پر دہشت گردی وغیرہ کے مقدمات درج ہوئے۔ اگر ایسا معاہدہ کرنا تھا تو پھر جوکچھ کیا گیا اس کا مطلب و مقصد کیا تھا۔ اور اتنے جانی ومالی نقصانات اور مقدمات سے تحریک لبیک کو کیا حاصل ہوا۔الٹا اس پرپابندیاں لگیں اور کالعدم قرار دی گئی۔ ان سب سے بڑھ کر وہ بنیادی نکتہ کہاں گیا جس کو لے کر تحریک لبیک نے آغاز کار کیا تھا؟

حکومت نے جو کچھ کیا اور جس طرح کی قرار داد کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اس میں بظاہر حکومت کی چالاکی تو نظر آتی ہے لیکن ایسی قرار داد سے اسلامو فوبیا کے بارے میں حکومتی موقف کو کیا پذیرائی ملنے کی امید ہے، اس ٹھنڈی میٹھی قسم کی قرارداد میں تو اصل مقصد صرف ابتدائیہ میں نظر آتا ہے لیکن حاصل تحریک کچھ نظر نہیں آتا۔ البتہ اس کو مذمتی قرارداد کہا جا سکتا ہے۔ اس حکومتی موقف میں کوئی دو رائے نہیں کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے سے فرانس بلکہ پورے یورپ کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔لیکن یہاں دو اہم سوال ہیں کہ حکومت نے ایسا معاہدہ کیوں کیا جو اس کیلئے ناقابل عمل تھا۔ لیکن اس سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر ہم یورپ، امریکہ وغیرہ وغیرہ کی ناراضی کو اتنا اہم سمجھتے ہیں تو پھر ناموس رسالت کیلئے لفظی جنگ کی کیا ضرورت ہے۔ کیا ہم اس حکم اور فرمان کو بھول گئے کہ نبی کریمﷺ مسلمانوں کیلئے اپنی جان، ماں،باپ اولاد اور مال سے زیادہ عزیز ہونے چاہئیں۔ اس فرمان کے بعد دنیاوی مفادات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اور یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری مسلم امہ( اگر حیات ہے) کیلئے اہم ترین معاملہ ہے۔حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان تازہ معاہدے میں نہ کسی کی جیت ہوئی اور نہ کسی کی ہار ہوئی نہ کسی کو کچھ حاصل ہوا۔ بلکہ دونوں وہیں کھڑے رہ گئے جہاں کھڑے تھے۔ دنیا کی دو دن کی زندگی اور آسائشیں حاصل کرنے کیلئے کوئی جتنے سمجھوتے کرلے لیکن دین اسلام کی حفاظت خود ﷲ تعالیٰ کرے گا یہ ﷲ پاک کا وعدہ ہے۔ اوردنیا کی اس فنا ہونے والی دو دن کی زندگی میں حصول مفادات کے لئے سمجھوتے کرنے والے بھی تو جوابدہ ہونگے ۔مجھے حکومت اور تحریک لبیک دونوں کی نیتوں پر ذرہ برابر شک نہیں لیکن تاریخ کو دیکھیں تو اکثر ایسے لوگوں نے جو اس وقت کسی منصب پر تھے منصب کوہی ترجیح دی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ اس اہم نکتہ کو سمجھنے کی ہر وقت ہر مسلمان کو ضرورت ہے۔

خبروں کے مطابق وزیر اعظم اور جہانگیر ترین کے درمیان ملاقاتوں کا امکان ہے لیکن وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ سب کی سنیں گے لیکن فیصلے قانون کے مطابق ہونگے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ملاقات کب ہوتی ہے اور اس ملاقات کا جہانگیر ترین کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صرف وزیر اعظم سے ملاقات اور شفاف تحقیقات کرانے کیلئے جہانگیر ترین نے اتنے پاپڑ کیوں بیلے۔ اور کیا اس ملاقات سے ترین صاحب کو کوئی ’’خاص فائدہ ‘‘حاصل ہو سکتا ہے۔ اور کیا وزیر اعظم شوگر مافیا اور منی لانڈرنگ کے بارے میں اپنے موقف و بیانات سے ہٹ کر ایک اور یو ٹرن لے سکتے ہیں۔ شاید اب ایسا ممکن نہیں۔ گزشتہ دنوں سرگودھا میں وزیر اعظم عمران خان سے جب جہانگیر ترین کے بارے میں سوال کیا گیا اور جواب میں وزیراعظم نے جو کچھ فرمایا اس سے ترین صاحب کی وزیر اعظم سے ملاقات کا نتیجہ نکلتا ہے۔ اب یہ ترین صاحب پر ہے کہ وہ سمجھے ہیں یا اب بھی ملاقات پر مصر ہیں۔ ابھی یہ بھی کنفرم نہیں کہ ملاقات ہونی ہے یا نہیں۔ اگرچہ کو ششیں جاری ہیں۔