وزیراعظم کا مشیر سے اختلاف

April 23, 2021

فکرفردا…راجہ اکبردادخان
میں حکومت کے مشاورتی عہدوں پر صرف رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تعیناتی کی حمایت نہیں کرسکتا، کیونکہ ایسی پوسٹنگز بذات خود اس بات کی گواہ ثابت ہوسکتی ہیں کہ ایسا سب کچھ تفریق کی بنیاد پر ہورہا ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب کبھی ایسے مسائل سر اٹھاتے ہیں، جن کا تعلق سیاہ فام اور ایشیائی لوگوں کی اکثریت سے ہو، حکمران جماعت اپنے میں سے اسی رنگ و نسل کے کسی فرد کو معاملات حل کرنے بٹھا دیتی ہے، حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ایسی مشاورت کے لیے بلا تفریق اہل فرد (یا فرد) کا چنائو کرلیا جائے تاکہ حکومت اور معاشرہ ایسے ٹیلنٹ سے مستفید ہوکر ایک طویل المدتی پروگرام تشکیل دے کر معاملات کے حل کے لیے راہیں طے کردیں۔ نسلی تعلقات کے معاملات نہ ہی کبھی جلد طے ہوسکے ہیں اور نہ ہی لمبے عرصے کے لیے حکمت عملی بن سکی ہے جس کے تحت ایک کثیر ثقافتی معاشرہ بن پانے میں رہنمائی مل رہی ہو، حکومتی ایوانوں تک ہماری آوازیں نہ پہنچنے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ہم ایسی کمیونٹی ہیں جو اکثر معاشرتی امور پر حکومت کے ساتھ مستقل رابطہ کی ضرورت میں نہ ہی یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی ایسی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ ہماری تنہائی کی موجودہ صورت حال اس کی گواہ ہے۔ مسلمان کمیونٹی کا ایک بڑا حصہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران کمیونٹی کے اکثریتی بہائو سے الگ ہوکر اس مائنڈ سیٹ کا حصہ بن گیا جہاں یہ بہائو اکثریتی معاشرتی بہائو سے ٹکرائو کے قریب پہنچ چکا ہے اور جہاں طلاطم کی شکل میں یہ طوفان کس جانب بہہ نکلتا ہے، کسی کو علم نہیں۔ مسلمان نوجوانوں کے پرتشدد واقعات جو کبھی کم رفتار ہوجاتے ہیں اور کبھی ان میں تیزی آجاتی ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں بھی ہماری علیحدگی پسند سوچیں، کورونا وبا تسلیم ہی نہ کرنا اور انجکشن نہ لگوانے کے لیے بے بنیاد تاویلات پر اصرار کرنا چند ایسے پیرا میٹرز ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے ہمیں محفوظ مقام تلاش کرنا ہے اور دیانتداری سے دیکھنے میں ہم باآسانی اس مقام پر پہنچ جائیں گے، جہاں سے ہمارے سوا ہر کوئی دیکھ پا رہا ہوگا کہ اسے کس سمت میں جانا چاہیے۔ پچھلے چند ہفتوں میں یارکشائر کے ایک اسکول میں گستاخانہ خاکے طالب علموں کو دکھائے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ اخبار The Timesنے وزیراعظم برطانیہ کی ایک مسلمان مشیر سارہ خان کا ایک طویل انٹرویو شائع کیا جس میں ان کی اسلامی انتہا پسندی کے خلاف جاری جنگ کا بھی ذکر ہے اور ان مشکلات کا بھی تذکرہ ہے جو انہیں بریڈ فورڈ میں تعلیم کے دوران پیش آئیں اور انہوں نے کس طرح ان پر قابو پایا۔ وہ اپنے انٹرویو میں اسکول کے باہر مسلمانوں کے احتجاج پر ناخوشی کا اظہار کرتی ہیں اور کہتی ہیں جب احتجاج کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ٹیچر کی ملازمت ختم کردی جائے، ان کا ایسے لوگوں کو یہ جواب ہے کہ ہم سب بعض چیزوں پر سختی کا یقین رکھتے ہیں، یہ عقائد مذہبی بھی ہوسکتے ہیں، سیاسی بھی ہوسکتے ہیں اور دوسری چیزوں میں بھی ہوسکے ہیں۔ لوگوں کے مختلف گروپس کے لیے مختلف قوانین نہیں ہوسکتے اور کسی کو ناراض کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ سارہ خان کی اس اہم تقرری میں ان کے مذہبی پس منظر نے دوسری صفات کے ساتھ اہم کردار ادا کیا ہوگا۔ مجھے بحثیت ایک مسلمان برطانوی شہری جو ریس ریلیشنز کے متعلق کچھ نہ کچھ جانتا ہے، اس بات کی وضاحت چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو یہ کہنے میں کس طرح حق بجانب سمجھتی ہیں کہ ’’کسی کو ناراض کرنا کوئی جرم (خرابی) نہیں‘‘ بقول ان کے ’’The Re Is No Right.Not To Beoffended یہ کسی دکان یا بس اسٹاپ پر قطار توڑنے کا معاملہ نہ تھا، بلکہ مسلمانوں کے نبی کی کارٹون تصاویر دکھانے کا معاملہ ہے اور اس معاملہ کی ایک تاریخ ہے، لوگوں نے عظمت رسول کی خاطر اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ مختلف ممالک میں مسلمان احتجاج کی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے ان کو کوہیژن بہتر کرنے کی اہم ذمہ داری سونپ رکھی ہے مگر جس طریقہ سے انہوں نے مسلمان جذبات کی تضحیک کی ہے وہ افسوسناک ہے، یہ نہ ہی ایک عام احتجاج تھا اور نہ ہی اس پر ان کی طرف سے ایسا ’’چھوٹا‘‘ ردعمل آنا چاہیے تھا۔ کئی مسلمان سربراہان حکومت بشمول پاکستانی وزیراعظم عمران خان ناموس رسالت کے ایشو کو یو این جنرل اسمبلی میں بھی اٹھا چکے ہیں۔ برطانیہ میں آباد تقریباً دو ملین مسلمانوں کو ان کے اس تبصرہ نے یقیناً اذیت پہنچائی ہے اور برٹش میڈیا نے خبر کی درست تصویر کشی کرتے ہوئے مسلمان جذبات کی صحیح ترجمانی کی۔ اگرچہ سارہ خان نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے پیدا ہونے اور پروان چڑھنے پر بات نہیں کی، تاہم اگر وہ دور غلامی کے متعلق بات کرنے کو تیار ہیں اور اس کے لیے وہ اس ایشو کی پروفائل تیار کرنے کے لیے متاثرہ افریقی خاندانوں کے لواحقین سے بھی انگیج ہونے کا عندیہ دے رہی ہیں جو ایک طویل اور مہنگا پراسس ہوگا۔ توقع ہے برصغیر پاک و ہند کی زندگی میں ڈھائے جانے والے مظالم جو انگریز حکمرانوں نے ڈھائے بھی اس وسیع مطالعہ اور ریپریشن پروگرام کا حصہ بن پائیں گے۔ میری طرح بڑی تعداد میں لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ معاشرہ کے ہموار چلنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام کریں اور مذہبی عقائد کا احترام معاشرہ میں اہم مقام رکھتا ہے اور لوگ کسی مذہب کی تعلیمات سے اختلاف تو کرسکتے ہیں مگر عام حالات میں دوسرے مذہب کی جان بوجھ کر تضحیک سے اجتناب کرتے دکھائی دیتے ہیں، اگر ایسا نہ ہ و تو معاشرہ کام نہیں کرسکے گا اور فی الحال ایسے حالات نہیں ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے آخری نبیﷺکی تشبیہات تیار کرنا اور ایسی تشبیہات کی مزید اشاعت ایسے اقدامات ہیں جو مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ ماضی میں چارلی ایبڈو کارٹون دنیا بھر میں احتجاج کی وجہ بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے پیغمبر اسلام کا نام اور شخصیت عقیدہ کی طرح جڑا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم دوسرے مذاہب سے مختلف بھی ہیں اور منفرد بھی۔ وزیراعظم کی مشیر مجھ سے زیادہ باعمل مسلمان ہوسکتی ہیں۔ تاہم اس جذباتی ایشو سے وہ اہل انداز میں نمٹنے میں وہ کامیاب نہیں دکھائی دیں اور جس طریقہ سے انہوں نے اس مسئلہ پر رائے زنی کی ہے، اس نے ان کے لیے کمیونٹی کو ہیژن کے کام کو مزید مشکل بنادیا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں ٹیررازم سے جڑے معاملات میں سیکڑوں نوجوان جیلوں میں ہیں، سیکڑوں خاندانوں کی زندگیاں درہم برہم ہوگئی ہیں، دہشت گردی کہیں بھی ہو برطانوی پاکستانی کمیونٹی کے نام جوڑ دی جاتی ہے، یہ سب کچھ کیوں ہوا، یا یوں کہیے کیوں ہونے دیا گیا، ایک بہت بڑا کمیونٹی ایشو ہے، جس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے کئی بار کہنے کے باوجود ہر حکومت اس دلدل میں پھنسنے سے گریز کرتی چلی آرہی ہے، یہ ایک ایسا ایشو ہے جو ہر وقت حکومت کے سامنے نہیں رہتا، لیکن یہ آج بھی اتنا ہی توجہ طلب ہے، جتنا کہ آج سے چند سال قبل تھا، سوچنے پر احساس ہوتا ہے کہ جتنی دیر اس مسئلہ پر توجہ نہیں دی جائے گی معاملہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گمبھیر ہوتا جائے گا اور یہی عدم توجہی کہیں زیادہ بھاری مشکلات کی وجہ نہ بن جائے۔