بابُ العلم، حضرت علی ؓ کے فرامین

May 04, 2021

مولانا سیّد شہنشاہ حسین نقوی

اگرامیرالمومنین، امام المتقین ،باب العلم سیّدنا علی کرم اللہ وجہہٗ کی سیرت و کردار کو سمجھ لیا جائے تو یقیناً ہمارے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا آسان ہوجائے گا۔ امامِ عالی مقامؓ کے تمام کلام یقیناً امام الکلام ہیں۔ ’’یومِ علی ؓ‘‘ کی مناسبت سے ہم بزمِ حضرتِ حیدرِ کرّارؓ میں حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں، تاکہ آپؓ کے نورانی کلماتِ حکمت و دانائی کے ذریعے ہماری رہنمائی ہو اور اِن گراں قدر سرچشموں سے بہتر استفادہ کیا جاسکے ۔امیر المومنینؓ فرماتے ہیں:

1۔’’ جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اُس نے اللہ کو پہچانا۔‘‘(غررالحکم، فصل 77)

2۔ ’’اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بر حق رسول بنا کر بھیجا ،تاکہ وہ لوگوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کراللہ کی عبادت کرائیں، بندوں کے عہدوپیمان سے خارج کرکے اللہ کے عہدوپیمان کے بندھن میں باندھ دیں، بندوں کی اطاعت چھوڑ کراللہ کی اطاعت میں لگ جائیں، بندوں کی ولایت سے نکل کراللہ کی ولایت میں داخل ہوجائیں۔‘‘(فروعِ کافی، ج 8، ص 386)

3۔’’ جو شخص بھی قرآن کے ساتھ نشست و برخواست رکھے گا ،اُس کے پاس سے جب بھی اُٹھے گا اس کی کچھ چیزوں میں اضافہ ہوگا اور کچھ چیزوں میں کمی ہوگی: ہدایت میں اضافہ ہوگا، جہالت واندھے پن میں کمی ہوگی۔ اِس بات سے آگاہ ہوجاؤ کہ قرآن حاصل کرنے کے بعد کسی کو فقر حاصل نہ ہوگا اور قرآن کے بغیر کسی کو کوئی تونگری حاصل نہ ہوگی۔‘‘ (الحیاۃ ، ج، 2، ص 101)

4۔’’ جو شخص کسی قوم کے کسی فعل پر راضی ہو، وہ اُس شخص کی مانند ہے جو اس فعل میں داخل (اور اس کا کرنے والا) ہو اور جو شخص باطل کام میں شریک ہوتا ہے، وہ دوگناہ کرتا ہے (۱) ایک تو خود عمل کا گناہ (۲) دوسرے اُس فعل پر راضی ہونے کا گناہ۔‘‘ (نہج البلاغہ، صبحی صالح، قصار الحکم 154، ص 499)

5۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ’’ایمان چار ستونوں پر قائم ہے۔1۔ صبر،2۔ یقین،3۔ عدالت،4۔ جہاد۔ اور صبر کے چار شعبے ہیں۔ شوق، خوف، زہد، انتظار۔ پس جس کو جنت کا شوق ہے وہ سرکش خواہشات سے کنارہ کش رہتا ہے اور جو آتشِ دوزخ سے ڈرتا ہے، وہ گناہوں سے بچتا ہے اور جو دنیا سے زہد اختیار کرتا ہے، وہ مصیبتوں اور ناگوار چیزوں کو ہیچ سمجھتا ہے اور جو موت کا انتظار کرتاہے، وہ نیک کاموں کے لیے جلدی کرتاہے۔

جہاد کی بھی چار قسمیں ہیں 1۔ امربالمعروف ،2۔ نہی عن المنکر،3۔ میدان جنگ میں سچائی،4۔ بدکاروں سے دشمنی۔ لہٰذا جو شخص امربالمعروف کرتاہے، وہ مومنین کی پشت مضبوط کرتا ہے اور جو، نہی عن المنکرکرتاہے، وہ کافروں کی ناک رگڑتا ہے، جو میدانِ جہاد میں واقعی مقابلہ کرتاہے، وہ اپنا فریضہ انجام دیتا ہے، جو بدکاروں کو دشمن رکھتا ہے اوراللہ کے لیے ان سے ناراض رہتا ہے، اللہ بھی اس کی وجہ سےان پر غصہ کرتاہے ۔‘‘ (نہج البلاغہ، صبحی صالح، قصار الحکم31، ص 374)

6۔ ’’جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک ایسا دروازہ ہے، جسے خدا نے اپنے مخصوص اولیاء کے لیے کھولا ہے اور یہ (جہاد) تقویٰ کا لباس ہے اور خدا کی مضبوط زرہ ہے اور بھروسے والی سِپر ہے جو اسے اعراض کی وجہ سے چھوڑ دے، خدا اُسے ذلّت کا لباس پہنائے گا۔‘‘ (نہج البلاغہ، صبحی صالح، خطبہ 27ص 69)

7۔’’ فتنوں کی پیدائش کا آغاز خواہشاتِ نفس کی پیروی اور ایسے اختراعی احکام ہوتے ہیں جن میں قرآن کی مخالفت ہوتی ہے اور کچھ لوگ آئین حق کے خلاف لوگوں کی حمایت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اگر باطل مکمل طور سے حق سے جدا ہوجائے تو متلاشی حق پر کبھی حق مخفی نہیں رہ سکتا اور اگر حق باطل کے التباس سے خالص ہوجائے تو دشمنوں کی زبانیں بند ہوجائیں ،مگر ہوتا یہ ہے کہ تھوڑا سا حق اور تھوڑا سا باطل لے کر مخلوط کرلیتے ہیں تو یہیں سے شیطان اپنے دوستوں پر غالب آجاتاہے اور صرف وہی لوگ نجات پاتے ہیں جن پراللہ کی رحمت شامل حال ہوجائے۔‘‘ (نہج البلاغہ، صبحی صالح،خطبہ 50 ص 88)

8۔ ’’اللہ کے دِین کو لوگوں سے نہیں پہچاننا چاہیے،بلکہ حق کی علامتوں سے پہچاننا چاہیے۔ لہٰذاپہلے حق کو پہچانو، اس کے بعد صاحبِ حق کو پہچان ہی لوگے۔‘‘ (بحارالانوار، ج 68، ص 120)

9۔ ’’خبردار! دوسروں کے غلام نہ بنو، جب کہ اللہ نے تم کو آزاد بنایا ہے۔‘‘ (غررالحکم،فصل 85)

10۔’’ امربا لمعروف اور نہی عن المنکر(یہ دونوں ) موت کو جلدی قریب نہیں آنے دیتے اور روزی میں کمی نہیں ہونے دیتے ،بلکہ ثواب کو دوگنا کرتے اور اجر کو عظیم کرتے ہیں اور ان دونوں(امربالمعروف ونہی عن المنکر)میں افضل، ظالم حاکم کے سامنے انصاف کی بات کہنا ہے۔ ‘‘(غرر الحکم، فصل 8 )

11۔’’ اچھا برتاؤ جس کی اصلاح نہ کرسکے، اچھی جزاء اُس کی اصلاح کرسکتی ہے۔‘‘(غررالحکم، فصل 77)

12۔ ’’دنیا کے دو آدمیوں نے میری کمر توڑدی ہے ۱۔گناہ گار چرب زبان شخص نے ۲۔ تِیرہ دل عبادت گزار شخص نے، پہلے نے اپنی زبان سے لوگوں کو اپنے فسق و فجور کے اظہار سے روک کر اور دوسرے نے اپنی عبادت کو اپنی جہالت کا پردہ بناکر، لہٰذا تم لوگ بدکار علماء اور جاہل عبادت گزاروں سے بچو۔ اس لیے کہ یہی لوگ ہر مفتون کے لیے فتنہ ہیں، اور میںنے خود رسولِ خداﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ فرماتے تھے: اے علیؓ، میری اُمّت کی ہلاکت ہر چرب زبان منافق کے ہاتھوں ہوگی۔‘‘ (روضۃ الواعظین، ص 6، الحیاۃ،ج 2 ص 337)

13۔’’ تمہاری نظر میں بدکاراور نیکو کا رہرگز برابر نہیں ہونے چاہئیں، کیونکہ ایسی صورت میں نیک لوگوں کو نیک کاموں سے بے رغبتی پیدا ہو گی اور بدکاروں کوبُرے کاموں کی تشویق پیدا ہوگی۔‘‘ (نہج البلاغہ، صبحی صالح، مکتوب 53، ص 430)

14۔’’ ہر شخص کی قدرو قیمت اُن نیکیوں سے وابستہ ہوتی ہے ،جنہیں وہ انجام دیتا ہے ۔‘‘(بحارالانوار،ج 78،ص 37)

15۔’’ اندھے کی بینائی کی انتہا دنیا ہے۔ وہ دل کا اندھا اس کے ماسوا کچھ دیکھتا ہی نہیں، لیکن بصیر اور روشن ضمیرشخص دنیا کو بڑی گہری نظر سے دیکھتا ہے اور اسے محدود اورناپائیدار سمجھتا ہے ۔اس لیے بصیر شخص دنیا سے کُوچ پر آمادہ ہے، لیکن دل کے اندھے نے اپنی آنکھوں کو اس پر جمارکھا ہے ۔بصیر شخص اس سے زیادہ توشہ ساتھ لے لیتا ہے لیکن دل کا اندھا اس سے محروم رہتاہے۔‘‘ (نہج البلاغہ، صبحی صالح ،خطبہ 133، ص 191)

16۔’’ لوگوں کے ساتھ معاشرت کرنے میں اپنے کو میزان قرار دو، لہٰذا جو اپنے لیے پسند کرو ،دوسروں کے لیے بھی پسند کرو، اور جو چیز اپنے لیے ناپسند کرو، دوسروں کے لیے بھی ناپسند کرو، دوسروں پر (اسی طرح) ظلم نہ کروجس طرح تم چاہتے ہو کہ تم پر ظلم نہ کیا جائے دوسروں پر اِسی طرح احسان کرو جس طرح تم چاہتے ہو کہ تم پر احسان کیا جائے۔ اپنے لیے جن چیزوں کو بُرا سمجھتے ہو، دوسروں کے لیے بھی ان کو ناپسند سمجھو، لوگوں کی جن باتوں سے تم راضی ہوتے ہو،انھی باتوں سے لوگوں کو بھی راضی کرو۔جو بات نہیں جانتے ، اُسے نہ کہو، بلکہ جن باتوں کو جانتے ہو، اُن میں سے بھی سب کو نہ کہو، اُس بات کو نہ کہو، جس کے بارے میں تم یہ پسند نہیںکرتے کہ تمہارے بارے میں کہی جائے۔‘‘ (تحفۃ العقول، ص 74)

17۔’’تمہارے تین دوست ہیں اور تین ہی دشمن ہیں۔ دوست تو یہ ہیں: ۱۔ تمہارا دوست ،۲۔ تمہارے دوست کا دوست، ۳۔ تمہارے دشمن کا دشمن۔ اور تمہارے دشمن یہ ہیں 1۔تمہارا دشمن، ۲۔ تمہارے دوست کا دشمن، ۳۔ تمہارے دشمن کا دوست۔ ‘‘(نہج البلاغہ، صبحی صالح، قصارالحکم 295، ص 527)

18۔ ’’جو زیادہ باتیں کرے گا، اُس سے غلطیاں بھی زیادہ ہوں گی اور جس کی خطائیں زیادہ ہوںگی، اُس کی حیا ء شرم کم ہوگی اور جس کی شرم کم ہوگی اُس کا تقویٰ کم ہوگا، اور جس کا تقویٰ کم ہوگا، اس کا قلب مردہ ہوجائے گا، اور جس کا قلب مردہ ہوجائے گا ،وہ دوزخ میں جائے گا۔‘‘(تحفۃ العقول، ص 89)

19۔’’ یہ نہ دیکھو کس نے کہا ہے ،یہ دیکھو کیا کہا ہے۔ ‘‘ (غررالحکم، فصل 85)

20۔ ’’تمام نیکیاں تین باتوں میں جمع کردی گئی ہیں، ۱۔ نگاہ، ۲۔ خاموشی، ۳۔ گفتگو ۔جس نگاہ میں عبرت نہ ہو اُس میں (ایک قسم کی) بھول ہے اور جس خاموشی میں تفکّرنہ ہو وہ غفلت ہے اور جس کلام میں یادِ خدانہ ہو، وہ بےہودہ ہے۔ لہٰذا خوشابحال اُس کا جس کی نگاہ میں عبرت ہو، خاموشی میں تفکّر ہو، گفتگو میں یادِخدا ہو ،اپنے گناہوں پر روتا ہو اور لوگ اُس کے شر سے محفوظ ہوں ۔‘‘(تحفۃ العقول، ص 215)

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اِن تمام تعلیمات پر صدقِ دل کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی توفیق کرامت عطا فرمائے، جو ہماری ابدی بصیرت افروزی کا باعث بنے۔(آمین)