رمضان کی تربیت: ہم پر پکا رنگ کیوں نہیں چڑھتا

May 05, 2021

رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی اسلامی معاشروں کا رنگ اور ڈھنگ یک سر بدل جاتا ہے۔ مسجدیں پوری طرح آباد ہوجاتی ہیں۔ کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔ قرآن و حدیث کے درس کی محفلیں سجتی ہیں۔ مسلمانوں کے شب و روز اور معمولات بدل جاتے ہیں، لیکن اس مقدّس ماہ کے رخصت ہوتے ہی صورت حال پھر پلٹا کھاتی ہے اور زیادہ تر مسلمان پھر پہلے والا رنگ ڈھنگ اپنا لیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایک ماہ تک صبح سے رات تک جاری رہنے والے معمولات ہم پر پوری طرح اثر اندازکیوں نہیں ہوتے؟ روح اور جسم کی کثافیتں دھو ڈالنے والے ماہِ مبارک کی تربیت سال بھر کتنی موثر رہتی ہے؟ماہِ صیام میں ہم کیا پڑھتے اور کیا کرتے ہیں؟اپنی خواہشات کا گلا کس حد تک گھونٹنے میں کام یاب ہوپاتے ہیں اور کس حد تک عادات تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟

مسئلہ نیت کا ہے

ممتاز عالم دین مفتی محمد اطہر نعیمی زندگی کی تقریباً نوّے بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ ان کے علم اور تجربے کی روشنی میں ان سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کی گئی۔ ان کے مطابق رمضان المبارک کی تربیت کے اثرات اس لیے دیرپا نظر نہیں آتے کہ لوگوں کی نیت درست نہیں ہوتی۔ پرانے زمانے کے لوگ کہتے تھے کہ رمضان کے نمازی اور برسات کے مینڈک گِنے نہیں جاتے۔ ابتدائی دو تین روزوں تک نماز کے اوقات میں مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے، لیکن اس تعداد میں آگے چل کر کمی واقع ہو جاتی ہے اور رمضان المبارک ختم ہوتے ہی ان میں سے بیش تر افراد مساجد کا رخ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہماری نیت میں اخلاص نہیں ہوتا۔

اگر اخلاص ہو تو ہم یہ ضرور سوچیں کہ کیا نماز مسلمانوں پر صرف رمضان المبارک کے مہینے میں فرض ہوتی ہے اور کیا دیگر احکام صرف اسی ماہ کے لیے مخصوص ہیں۔ انسان کے اعمال پر نیت اور تربیت کا بہت اثرہوتا ہے۔ ایک وہ شخص ہوتا ہے، جو جانتے بوجھتے اچھائی کی راہ پر نہیں چلنا چاہتا اور ایک وہ شخص ہوتاہے، جو ایسا کرناچاہتاہے، لیکن اسے اچھائی کی راہ پر چلنے کی تربیت نہیں ملی ہوتی، لہٰذا اس کا ذہن برائی کی طرف لگا رہتا ہے۔

ان کے مطابق مسلمانوں کے لیے ماہ رمضان کی تربیت ریفریشر کورس کی مانند ہوتی ہے، لیکن اچھے کام کرنے کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس ماہِ مقدس کو بھی معمول کے مطابق گزارتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ آخر اس ماہ میں روزے ہم پر کیوں فرض کیے گئے ہیں اور اس ماہ میں نیکی اورعبادات کرنے کا اتنا اجر کیوں رکھا گیا ہے۔

تربیت کے ضمن میں احساس ذمے داری کا بھی مسئلہ ہے۔ موجودہ ماحول میں والدین اور علمائے کرام، دونوں تربیت کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کر رہے۔ پورے مہینے تک روزے رکھنے اور پنج وقتہ نماز ادا کرنے کے باوجود لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس ماہ میں کتنی اچھائیاں اپنائی ہیں، کتنی برائیوں سے دامن چھڑایا ہے اور تقویٰ کی کتنی منزلیں طے کی ہیں۔ لہٰذا ماہِ مقدس ختم ہوتے ہی وہ پرانی ڈگر پر چل پڑتے ہیں۔ مسلمانوں نے اسلام کی معاشرتی اقدار کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہم سے منہ موڑ لیا۔ رمضان المبارک پورے احتساب کے ساتھ گزارا جائے تو اسلامی معاشرے دنیا بھر کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔

مفتی شاہ حسین گردیزی بھی طویل عرصے سے درس و تدریس اور وعظ و تقریر کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں۔ ان کے مطابق رمضان المبارک کے حوالے سے لوگوں کا جتنا ارادہ ہوتاہے،وہ اتنا عمل کرلیتےہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا رواج بن گیا ہے کہ رمضان المبارک میں نماز اور قرآن پڑھیں گے اور سال کے باقی دنوں میں ان سے منہ موڑے رہیں گے۔ دراصل لوگوں کی نیت مستقل اصلاح کی نہیں ہوتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عید الفطر کا چاند نظر آنے کی اطلاع ملنے کے بعد بہت سے افراد عشاء کی نماز پڑھنا بھول جاتے ہیں یا مسجد کا رخ نہیں کرتے۔ تاہم ہر سال رمضان المبارک میں بعض افراد کی ماہیتِ قلب ہو جاتی ہے۔

مادّیت کا غلبہ

نجیب احمد ایک سرکاری ادارے میں سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے ملازم ہیں۔ ان کے مطابق رمضان المبارک کی تربیت اس لیے پائے دار ثابت نہیں ہوتی کہ ہمارا معاشرہ استحصالی معاشرے کا روپ دھار چکا ہے، جس میں ہر شخص دوسرے کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایسے میں لوگ سوچتے ہیں کہ اگر انہوںنے صرف حق اور سچ بات کہی اور زندگی کے معاملات میں راست باز رہے، تو یہ معاشرہ انہیں نگل جائے گا یا ان کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسے حالات میں اگر انہوں نے صرف حق حلال کی کمانے کی سوچی، تو انہیں دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل پائے گی۔

اگرچہ فکر کا یہ انداز درست نہیں ہے، لیکن مادیت کا ہمارے قلب و ذہن پر ایسا غلبہ ہے کہ ہمیں کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔ ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ صراطِ مستقیم پر چلنے والوں کے لیے مشکلات تو ہوتی ہیں، مگر بہت سی غیبی مدد، برکتیں، سہولتیں اور اطمینانِ قلب کی دولت بھی ہمارے حصے میں آتی ہے، مگر اس کے لیے استقامت کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ آج عام مسلمان مشکلات میں پڑنے اور حق کے لیے استقامت کا مظاہرہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ ان حالات میں رمضان المبارک کی تربیت بعض اوقات یکم شوال ہی کو دم توڑ دیتی ہے۔

روحانی اور جسمانی تطہیر کا مہینہ

صدر بازار کے علاقے میں عید کی خریداری کے لیے آنے والے جنید عباسی، فواد مرتضیٰ، احمد برلاس، اظفر نعمانی، تجمل صدیقی اور دانش راجا کے مطابق اس مہینے میں دین کے فہم کا جذبہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت بہت سے مسلمان مساجد، دینی مدارس اور کتب خانوں کا رخ کرتے اور ان سے مستفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر عوام اور علمائے کرام مخلصانہ کوشش کریں، تو اس ماہ کی تربیت کے اثرات معاشرے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں لاسکتے ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ تربیت کرنے والوںپر بھی معاشرے کا رنگ چڑھ چکا ہے، لہٰذا فرض روزوں کو ان کی حقیقی روح کے مطابق نہ تو سمجھا جاتا ہے اور نہ رکھا جاتا ہے۔

اس ماہ کو بھی عام موسمی یا مذہبی تہوار کے طورپر لیا جاتا ہے، حالاں کہ روزے کی روح تقویٰ اور پرہیز گاری ہے۔ یہ تربیت اور کردار سازی کا مہینہ ہے، جس میں پورے سال کی روحانی اور جسمانی کثافتیں دھوئی جا سکتی ہیں۔ اس ماہ کے روزے فرض کرنے کا مقصد جسم کے ساتھ روح کی تطہیر کرناہے۔ روزہ مسلمانوں کو روحانی غذا فراہم کرتا ہے، ذہنی اور فکری تربیت کرتا ہے اور انسان اور حیوان کا فرق سمجھاتا ہے۔ نفس کے بے لگام گھوڑے کو لگام دینا ہی روزے کا مقصود ہے۔ نفس اور پیٹ کی طلب سے رک جانا ہی تزکیۂ نفس ہے اور تزکیۂ نفس ہی روزے کی روح ہے۔

مذکورہ افراد کے مطابق روزہ ہمیں ضبطِ نفس، صبر اور نظم و ضبط کی تعلیم دیتا ہے ، مگر ہم سے بہت سے افراد افطار سے کچھ دیر قبل اور افطار کے فوراً بعد اس آزمائش میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ افطار سے کچھ دیر قبل ہمارے معاشرے میں مختلف نوعیت کے جھگڑے ہونا عام بات ہے۔ اسی طرح مغرب کی اذان کا پہلا لفظ کان میں پڑتے ہی ہم سب کچھ بھول کر چھولوں اور پکوڑوں پر اس طرح ٹوٹتے ہیں کہ ضبطِ نفس کا پورا فلسفہ یک دم زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ تربیت کی پہلی منزل،یعنی گھر، اپنا مطلوبہ کردار ادا نہیں کر رہا۔ والدین اور اساتذہ خود باعمل نہیں رہے۔ مادیت، روحانیت پر غالب آ گئی ہے۔ سچی اور حقیقی راہ نمائی دست یاب نہیں ہے۔بولوںمیں تاثیر اور کردار میں کشش باقی نہیں رہی۔ روزہ اسی کش مکش میں فتح یابی کا نام ہے۔

ان افراد کے مطابق اس ماہِ مقدس میں ایسے افراد بھی مساجد کا رُخ کرتے ہیں، جو باقی دنوں میں کوئی نماز نہیں پڑھتے۔ ان تمام افراد کی اس ماہ میں ذہن سازی کی جاسکتی ہے۔ اگر عوام، علماء اور مشائخ یہ سوچ کر کام کریں کہ انہیں اس مہینے کے توسط سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر انقلاب لانا ہے تو ہم معاشرے میں بہت دُوررس اور ٹھوس تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہم دین کے معاملے میں بھی شارٹ کٹ کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ اب بہت سے افراد تین، پانچ یا دس روزہ تراویح پڑھ کر رمضان کے باقی ایام میں خود کو اس عبادت سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بات خلاف حقیقت ہے۔

دینی کتب کے مطالعے کا رجحان

اس مہینے میں دین کا فہم حاصل کرنے کے لیے عام مسلمانوں میں قرآن کریم، ترجمہ اور تفسیرِقرآن، احادیث اور مختلف دینی کتب کے مطالعے کے رجحان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس ماہ میں کتنی تعداد میں لوگ کون کون سی کتب خریدتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے اردو بازار کا رخ کیا گیا۔ یہاں مختلف تاجرانِ کتب سے گفتگو ہوئی۔ سید محمد عاطف نامی تاجرِ کتب کے مطابق رمضان المبارک میں سب سے زیادہ ترجمے اور تفاسیر کے ساتھ قرآن مجید، پھر قرآنی علوم پر مبنی اور احادیث کی کتب، پھر فقہ، تاریخِ اسلام اور تصوِف کی کتابیں طلب کی جاتی ہیں۔

لوگ ایسی تفاسیر طلب کرتے ہیں جو آسان زبان میں ہوں۔ صرف و نحو کی کتب کے ذریعے لوگ ناظرہ قرآن کے ضمن میں اپنی تصحیح کرتے ہیں۔ علوم قرآنی کی زیادہ تر کتب عربی سے اردو میں ترجمہ شدہ ہیں۔ احادیث کی آسان زبان میں ترجمہ اور اچھی طرح طبع شدہ کتب پسندکی جاتی ہیں۔ فقہ اور تصوّف کے قاری نسبتاً کم ہوتے ہیں۔ آٹھ دس برسوں سے خاص رمضان المبارک کے حوالے سے کتاب اور کتابچے بازار میں آنے لگے ہیں، جن میں عبادات پر زیادہ زور ہوتا ہے، ایسے افراد بہ مشکل دس فی صدہوں گے جو رمضان المبارک میں دینی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد خود کو تبدیل کرلیتے ہیں۔ عاطف کے مطابق دینی کتب کل آبادی کا صرف دو فی صد طبقہ پڑھتا ہے اور اس میںعام آدمی کا حصّہ محض صفر اعشاریہ پانچ فی صد ہوتا ہے، لہٰذا تبدیلی آنے کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟

دیگر دکانوں پر فرحان احمد، رفیق اور عثمان سے گفتگو ہوئی۔ ان کے مطابق عام دنوں کے مقابلے میں دینی کتب کی فروخت میںسو تا چارسوفی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔ خواتین زیادہ تر بغیر ترجمے اور تفسیر اور مرد ترجمے اور تفسیر والا قرآن کریم کا نسخہ ہدیہ کرنا چاہتے ہیں۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دیگر اقسام کی اسلامی کتب، اور دنیاوی موضوعات پر مبنی کتابیں بھی رمضان میں زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔

تاہم ایک تاجر نے اس بارے میں مختلف موقف اختیار کیا۔ ان کے مطابق ایسا کوئی پیمانہ نہیں جس کے ذریعے یہ بتایا جاسکے کہ رمضان المبارک میں کس قسم کی کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ البتہ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس ماہ میں قرآن کریم کے ہر طرح کے نسخے اور مختلف دینی کتب نسبتاً زیادہ طلب کی جاتی ہیں۔

مذکورہ تاجران کتب کے علاوہ صلاح الدین نامی شخص سے بھی گفتگو کی گئی، جو ایک مکتبہ کے نگراں ہیں۔ ان تمام افراد سے ہونے والی گفتگوسےیہ اندازہ ہوا کہ عام معاشرتی تربیت، تربیتِ نفس اور حقوق العبادکے موضوعات پر بہ طور خاص زور دینے والی کتب بازار میں زیادہ دست یاب نہیں ہیں اور نہ عوام ایسی کتب زیادہ طلب کرتے ہیں۔ مختلف پبلشرز نے ہمارے طلب کرنے پر بعض کتب پیش کیں، لیکن ان میں مذکورہ باتیں ذیل کے عنوانات کے تحت کہیں کہیں موجود تھیں۔

کتب کے علاوہ آج کل آڈیو، وڈیو سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز پر بھی دینی مواد دست یاب ہے۔ ان کا سب سے بڑا مرکز صدر بازارکے علاقے میں واقع رینبو سینٹر ہے۔ وہاںاور اردو بازار میں بھی بعض دکانوں پر اصلاحی بیانات، تلاوت، نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم، انبیائے کرام کے بارے میں قصص، بچوں کی تربیت کے لیے اسلامی کہانیوں، قرآن کریم کو پڑھنا سکھانے والی، نماز اور وضو کا طریقہ سکھانے والی، ترجمہ اور تفسیر قرآن والی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز نظر آئیں۔

اس کے علاوہ ان کے موضوعات کا دائرہ حج و عمرے کے بارے میں راہ نمائی، کعبتہ اللہ میں ادا کی جانے والی تراویح کی نمازوں کی ریکارڈنگ، درس قرآن و حدیث، ختم قرآن کی مجالس میں کی جانی والی اجتماعی دعائیں اور بیانات اور رمضان المبارک کے فضائل و مسائل تک دراز نظر آیا۔ تاہم، ایک سی ڈی نے بہ طور خاص ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ وہ عذاب قبرکی تخیّلاتی تصویرکشی پر مبنی تھی۔ اسے اردو بازار میں فروخت کرنے والے نوجوان فرحان کے بہ قول جب انہوں نےاسے دیکھا تھاتو وہ خوف زدہ ہوگئے تھے۔ اسی طرح کی ایک کتاب اور بھی بازار میں دست یاب ہے جس میں عذاب قبر کے حوالے سے بعض تصاویر شامل اشاعت کی گئی ہیں جو دلوں میں خوف پیدا کرتی ہیں۔

رمضان اور زبان کے چٹخارے

بعض افراد رمضان المبارک کو بڑی حد تک زبان کے چٹخارے کے لیے یادکرتے ہیں۔ اُن کے مطابق کھجلہ، پھینی ، پکوڑے، سموسے،چھولے، دہی بڑے، چاٹ، شربت وغیرہ رمضان کی جان ہیں۔ اگر یہ اشیاء رمضان میں کھانے،پینے کو نہ ملیں تو انہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے رمضان آیا ہی نہیں ہے۔ ان میں سے بعض افراد روزے نہیں رکھتے، لیکن افطار اور سحری سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سےجانے نہیں دیتے اور فرمایش کرکے یہ اشیاء پکواتے، منگواتے اور بنواتے ہیں۔ ان کے بہ قول اگرچہ یہ اشیائے خورونوش دیگر ایّام میں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں، لیکن رمضان میں نہ جانے کیوں اُن کا لطف علیحدہ ہی ہوتا ہے۔

کھجلہ اور پھینی عام دنوں میں دست یاب نہیں ہوتی، لہٰذا ان کے دل دادہ رمضان میں ان سے خوب لطف اٹھاتے ہیں۔ برنس روڈ پر واقع ایک دکان کے مالک ریاض احمد کے مطابق کھجلہ اور پھینی یکم سے آخری رمضان تک تیار اور فروخت ہوتی رہتی ہے۔ تاہم ابتدائی روزوں میں ان کی بہت زیادہ مانگ ہوتی ہے اور منوں کے حساب سے یہ اشیاء تیار اور فروخت ہوتی ہیں۔ البتہ پہلے کے مقابلے میں ان کی فروخت میں کمی آئی ہے، کیوں کہ منہگائی اور طرح طرح کی بیماریوں نے ان اشیاء کی خریداری اور استعمال کی شرح کم کردی ہے۔

رتجگے اور تفریح

کریم سینٹر میں خریداری کے لیے آنے والے نوجوان اشعر حنیف کے مطابق وہ عیدکی خریداری کے لیے عموماً رمضان کے آخری عشرے میں آتے ہیں۔ وہ ایک نجی ادارے میں ملازم اور غیر شادی شدہ ہیں۔ وہ رمضان المبارک میں ہر ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب میں رات بھر کرکٹ کھیلتے اور اتوار کو زیادہ تر وقت سوتے ہوئے گزارتے ہیں۔ سحری کا وقت ختم ہونے سے تقریباً بیس منٹ قبل ان کی والدہ بڑی مشکل سے انہیں نیند سے بے دار کرتی ہیں۔

اگر سحری میں انہیں انڈا اور پراٹھا نہ ملے تو دن بھر بھوک ستاتی رہتی ہے اور اگر کوئی سالن، خصوصاً قورمہ، پائے یا نہاری مل جائے تو ان کی چاندی ہوجاتی ہے۔ گلشنِ اقبال کے رہائش اس نوجوان کے مطابق وہ سحری سے فارغ ہونے کے بعد کبھی گھر میں اور کبھی مسجد جاکر نمازِ فجر ادا کرلیتے ہیں اور دوبارہ جلد از جلد سونے کی کوشش کرتے ہیں۔ تقریباً ایک گھنٹے تک نیند لینے کے بعد وہ بے دار ہوکر دفتر جانے کی تیاری کرتے ہیں اور تقریباً چار بجے سہ پہر گھر لوٹنے کے بعد ایک مرتبہ پھر بستر کا رخ کرتے ہیں۔ افطار سے تھوڑی دیر قبل انہیں نیند سے بے دار کیا جاتا ہے۔

افطار کرنے کے بعد وہ عموماً محلے کی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں۔ گھر لوٹنے کے بعد ٹیلی ویژن سے دل بہلاتے ہیں اور اہل خانہ سے گپ شپ کرتے ہیں۔ پھر نمازِ عشاء ادا کرنے کے لیے مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ وہ مستقل مزاجی سے تراویح پڑھنے والوں میں شامل نہیں ہیں۔ جس روز وہ زیادہ تھکے ہوئے ہوتے ہیں، اس روز تراویح نہیں پڑھتے۔ مسجد سے آنے کے بعد وہ کھانا کھاکر دوستوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ کورونا کی وبا سے پہلے وہ تراویح کے بعد دوستوں کے ساتھ وہ کسی روز لسّی اور کسی روز پھلوں کا شربت پینے نکل جاتے تھے۔ کبھی اسنیک بار یا ریسٹورنٹ کا رخ بھی ہوجاتا تھا۔

شارٹ کٹ تراویح، سال بھر کی کمائی کا مہینہ

بوہرہ بازار، صدر میں واقع ملبوسات کی دکان کے مالک احسان اللہ کے مطابق رمضان المبارک میں دکان داروں کے معمولات یک سر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ دن کے تقریباً گیارہ بجے دکان کھلتی ہے اور رات کو دیر تک کاروبار جاری رہتا ہے۔ تاہم جب سے کورونا کی وبا پھیلی ہے سارے معمولات الٹ پلٹ گئے ہیں۔ اس وبا سے قبل آخری عشرے میں کاروبار کا سلسلہ تقریباً پوری رات پر محیط ہوجاتا تھا۔عام حالات میں بڑے بازاروں میں واقع زیادہ تر دکانوں کے مالک اور وہاں کام کرنے والے افراد کوشش کرتے ہیں کہ کم ازکم تین اور زیادہ سے زیادہ دس روزہ تراویح میں شرکت کرکے اس جانب سے ’’فارغ‘‘ ہوجائیں۔ اسے شارٹ کٹ تراویح کہا جاتا ہے۔

ان کے بہ قول دکان دار اس مہینے کو سال بھر کی کمائی کا مہینہ کہتے ہیں۔ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے وہ دو تین ماہ قبل تیاریاں شروع کردیتے ہیں، قرضے لیتے ہیں، مال کا آرڈر دیتے ہیں، نت نئی ورائٹیز تلاش کرتے ہیں اورنئے سیلز مین رکھتے ہیں۔ بہت کم دکان دار ایسے ہیں جو اس مہینے میں بھرپورکمائی کے لیے جان توڑ محنت نہ کرتے ہوں۔

وہ عموماً روزے نہیں رکھتے۔ اس مبارک مہینے میں کاروباری سرگرمیوں کے دوران دھوکا دہی، جھوٹ اور فریب عروج پر ہوتا ہے ۔ من مانی قیمتیں وصول کرنے کے لیے بہت سی اشیاء کی مصنوعی قِلّت پیدا کی جاتی ہے اور مال کا معیار گرا کر پہلے والے نرخ پر فروخت کیاجاتا ہے۔ اس مہینے میں کاروباری حضرات کے معمولات دین کے لیے کم اور دنیا کے لیے زیادہ تبدیل ہوتے ہیں۔

پان سگریٹ وغیرہ کی طلب اورکوٹا پورا کرنا

سعودآباد ملیر میں واقع پان کی ایک دکان پر پان ،سگریٹ خریدنے کے لیے آنے والے ایاز، کاشف، نعمان اور عبدالسمیع کے مطابق پان سگریٹ وغیرہ استعمال کرنے والوں کو روزے کے دوران ان کی شدید طلب محسوس ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ دن بھر بے چین رہتے ہیں، تاہم بعض افراد اپنی مضبوط قوتِ ارادی کی وجہ سے اس طلب کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے۔

ان افراد کے مطابق اگر کوئی روزہ نہ رکھنے والا ان کے سامنے پان، سگریٹ،گٹکا، مین پوری، نسوار وغیرہ استعمال کرے تو ان اشیاء کا نشہ کرنے والا ایسا شخص جس کا روزہ ہو، کچھ بے چینی محسوس کرتا ہے اور اس کی طلب بڑھ جاتی ہے۔

اس دکان کے مالک احسان احمد کے مطابق نشہ کرنے والے بعض افراد افطار سے سحر تک اپنا پان سگریٹ وغیرہ کا معمول کا کوٹا استعمال کرلیتے ہیں۔ ان کے بعض گاہک عام دنوں میں جتنے پان یا سگریٹ دن بھر میں استعمال کرتے ہیں، اتنے ہی رمضان میں افطار سے سحر تک استعمال کرلیتے ہیں۔ ایسے افراد افطار کرنے کے بعد سے تراویح تک، پھر تراویح کے بعد ایک دو گھنٹے تک اور سحری کھانے کے بعد ایک آدھ گھنٹے میں یہ کوٹا استعمال کرلیتے ہیں، تاہم بہت سے افراد رمضان میں پان سگریٹ معمول سے کم استعمال کرتے ہیں۔ احسان احمد کے بہ قول مجموعی طور پر رمضان میں ان کی آمدن بہت کم حد تک متاثر ہوتی ہے۔