شوکت ترین کا معاشی وِژن!

May 07, 2021

وزیر خزانہ شوکت ترین نے تحریک انصاف حکومت کے دور میں اپنی منصبی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد بدھ 5مئی 2021کو پہلی نیوز کانفرنس سے خطاب میں اپنے معاشی وژن پر روشنی ڈالی جس میں کورونا سے پیدا شدہ صورتحال، آئی ایم ایف کی شرائط، بجلی کے نرخوں، محاصل کے اہداف، افراط زر اور زرعی و صنعتی صورتحال سمیت متعدد امور کا احاطہ کرتے ہوئے اہم معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے کے لئے میثاق معیشت کا ایجنڈا آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ان کے تمام سیاسی جماعتوں سے اچھے تعلقات ہیں اور ان کی کوشش ہوگی کہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں میں بنیادی سطح پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ میثاق معیشت کی تجویز قبل ازیں کئی بار سامنے آتی رہی ہے ۔اس کا مقصد یہ تھا کہ ملکی معیشت کو ترقی کی ایک متعین راہ پر آگے بڑھانے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں ایسے بنیادی ایجنڈے پر اتفاق کرلیں جس کی سمت حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہ ہو اور جو سیاسی پارٹی بھی اقتدار میں آئے وہ طے شدہ ہدف کی جانب معاشی سفر کی سمت برقرار رکھتے ہوئے تسلسل سے کام جاری رکھے۔ بدقسمتی سے ماضی میں اس تجویز پر عمل نہ ہوسکا۔ اب اگر شوکت ترین مختلف سیاسی جماعتوں سے اپنے تعلقات بروئے کار لاتے ہوئے ایسے میثاق پر اتفاق رائے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقیناً یہ ایک بڑا کام ہوگا۔ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ’’ٹریکل ڈائون‘‘ کا تصور ناکام ہوچکا ہے، نچلی سطح سے اوپر کی طرف بڑھوتری کے سفر کے ذریعے اقتصادی خوشحالی کی طرف جائیں گے۔ وزیر خزانہ کا یہ دوٹوک موقف مہنگائی کی چکی میں پسنے والی عوامی اکثریت کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے کہ کورونا وبا کی تیسری لہر سے برسرپیکار ہونے کے دوران نہ تو بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں گے، نہ ہی محاصل میں اضافہ ہوگا۔ یہ سوچ بھی واضح ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام بہت مشکل تھا، سخت شرائط رکھی گئیں جن کی سیاسی قیمت بھی ہے تاہم پاکستان نے اس باب میں بہت کچھ کیا لیکن کورونا وائرس کی تیسری وبا سے پیدا شدہ مسائل کے دوران اس انداز میں کام نہیں کیا جاسکتا جیسا آئی ایم ایف مطالبہ کررہا ہے۔ ہمیں اپنے طریقے سے تھوڑا تھوڑا کرکے ریونیو کے حصول میں آگے بڑھنا ہے۔ مالیاتی ادارے سے کہا گیا ہے کہ یکدم اضافے کی گنجائش نہیں۔ جیسا کہ وزیر خزانہ نے کہا، پاکستان کو آئی ایم ایف سے یہی بات کرنی ہے کہ کچھ سانس لینے کا موقع دیا جائے۔ پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ اس وقت ملکی معیشت کو بڑا خطرہ کورونا وبا سے ہے وگرنہ وطن عزیز کی معیشت میں بحالی کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ کووڈ کی تیسری لہر کے دوران مالیاتی ادارے کی طرف سے اسلام آباد کو سہولت فراہم کیا جانا ضروری ہے۔ شوکت ترین کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو آگاہ کیا گیا کہ 92فیصد ریونیو اکٹھا کیا جارہا تھا جس کی سطح کورونا وبا کے باعث 57فیصد تک آگئی ہے۔شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ریونیو میں اضافے کے لئے ٹیرف اور ٹیکسوں کی شرح میں یکدم اضافے کی نہ گنجائش ہے نہ یہ مناسب ہے، ٹیکس نیٹ بڑھانا ہی درست حکمت عملی ہے۔ ان کے مطابق جنوبی کوریا نے پاکستان سے ترقیاتی ماڈل لے کر کامیابی حاصل کی۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اقتصادی مشاورتی کونسل میں 12ذیلی گروپ بنائے گئے ہیں تاکہ مختلف شعبوں میں مختصراً قلیل اور طویل مدتی پالیسیاں وضع کی جاسکیں۔ ان کی یہ سوچ بھی وزن رکھتی ہے کہ زراعت کو بھی صنعت کے طور پر ترقی دی جائے ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ کورونا وبا پر جلد قابو پالیا جائے گا اور وطن عزیز تیز رفتاری سے خوشحالی کا سفر طے کرے گا۔