کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد

May 07, 2021

ادھورے خوابوں کی تصویریں کینوس پر پینٹ کی جائیں تو قوس ِ قزح کے رنگوں سے مکان ابھر ابھر آئیں گے یعنی اگر کسی سےاس کی دیرینہ خواہش کے بارے سوال کیا جائے تو پاکستان کی آدھے سے زیادہ آبادی کا جواب ان کی اپنی چھت ہوگا۔ ایسا گھر جو ان کی ذاتی ملکیت ہو،جس کیلئے ان کو کرایہ نہ دینا پڑے۔ ایک عام شخص اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی بڑھاپے میں اپنے اور اپنے خاندان کیلئے گھر کی تعمیر پر لگا دیتا ہےکہ کم از کم میری آنے والی نسلیں تو اپنے ذاتی مکان میں رہیں گی ۔اکثر لوگ تو ساری زندگی کام کرکے بھی گھر بنانے جتنے پیسے اکٹھے نہیں کرپاتے۔ مہینے بھر کی تگ و دو کے بعد جب ایک شخص اپنی تنخواہ گھر لیکر جاتا ہے تو اسی رقم میں سے بجلی کا بل، بچوں کی فیس، کھانا پینا اور گھر کا کرایہ نکالنا ہوتا ہے۔ باقی کی ضروریات تو ایک طرف، ان چند بنیادی ضروریات میں سے بھی ایک آدھ ضرورت رہ جاتی ہےجو عام طور پر بچوں کی پڑھائی ہوتی ہے۔ اب ایک مزدور باپ بچوں کو پڑھائے یا ان کو کھانا کھلائے اور رات کو سونے کیلئے چھت فراہم کرے؟

یہ مسئلہ پاکستان کی آبادی میں موجود ہر طبقے کا ہے، چاہے وہ سفید پوش، وائٹ کالر جاب کرنے والا ہو یا پھر 20 ہزار کی نوکری کرنے والا فیکٹری مزدور۔ مڈل کلاس سے لیکر لوئر کلاس کا ہر شخص اس فنانشل کرائسس سے دوچار ہے۔ اگر عوام کے اس درد کو سمجھ لیا جائے تو 50 لاکھ گھروں کا وعدہ سمجھ آتا ہے بلکہ 50 لاکھ گھر بھی کم معلوم ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے حال ہی میں متعدد ہائوسنگ منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا جو تحریکِ انصاف کے وعدے کی تکمیل کی طرف اہم سنگ میل ثابت ہوا مگر صرف ہائوسنگ پروجیکٹس کی تعمیر سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، گھر ایسے ہوں جو کم آمدن والے افراد بھی لے سکیں، ایک مزدور کا خواب پورا ہو سکے، اس گھر کی قسط اتنی کم ہو جتنے کرایہ پر ایک غریب خاندان ایک یا دو کمروں کے گھر میں رہتا ہے۔ افورڈایبل ہائوسنگ تو تب ثابت ہوگی جب کمزور ترین طبقات ان حکومتی منصوبوں کا حصہ بن سکیں گے۔

اس مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب میں پیری اربن ہائوسنگ اسکیمز کے منصوبے پر خاطر خواہ پیش رفت نظر آرہی ہے۔ تقریباً ساڑھے3 مرلے کے10 ہزار گھروں کی تعمیر کے منصوبے کا آغاز کیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے کے تحت 26تحصیلوں کے32 مقامات پر گھروں کی تعمیر کی جائے گی۔ بزدارحکومت نے ان سائٹس کی ڈویلپمنٹ کیلئے3ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اربوں روپے کی زمین حکومت کی جانب سے سبسڈائزڈ ریٹ پر دی جارہی ہے۔15 لاکھ میں تیار ہونے والے اس گھر کیلئے نیفڈا کی جانب سے 3 لاکھ، درخواست گزار کی جانب سے ڈیڑھ لاکھ اور بینک کی جانب سے دس لاکھ روپے بطور قرضہ فراہم کیا جائے گا۔ تقریبا دس سال میں دس ہزار ماہانہ کے حساب سے گھر کا مالک اپنے گھر کی قسط ادا کرے گا۔ رائیونڈ، چونیاں، منڈی بہاؤالدین، خانیوال، میانوالی، سرگودھا، خوشاب، چنیوٹ، ملتان اور ڈی جی خان سے پیری اربن ہائوسنگ پروجیکٹس کا آغاز دیگر تحصیلوں تک جائے گا۔

ان ہائوسنگ پروجیکٹس کے علاوہ پنجاب میں دیگر منصوبہ جات پر بھی کام ہورہا ہے جس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ دیگر منصوبے بھی صرف نعرے بازی نہیں بلکہ حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں چاہے کوئی چھوٹا منصوبہ ہو یا پھر بڑا منصوبہ ،حکومت ترقیاتی ترجیحات میں سنجیدہ معلوم ہوتی ہے۔ ایک طرف میگا منصوبے جیسے راجن پور اور بہاولنگر میں مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال اینڈ نرسنگ کالجز کے منصوبوں کیلئے پری کوالیفکیشن کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے، دوسری جانب چھوٹے منصوبے جیسے سال 2020 کے آغاز میں عثمان بزدارنے اوپن ڈیفیکیشن فری پنجاب پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ نے یونیسیف کے تعاون سے اس منصوبے کا پہلا فیز مکمل کرلیا ہے۔ پنجاب کے 10 اضلاع کے 802 ہائی رسک ویلیجز میں تقریبا 40 ہزار خاندانوں کیلئے ٹوائلٹس کی تعمیر کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ بہاولنگر، بہاولپور، بھکر، چنیوٹ، ڈی جی خان، خوشاب، لودھراں، راجن پور، رحیم یار خان اور جھنگ کے 802 میں سے 94 فیصد دیہات او ڈی ایف سرٹیفائیڈ ہوچکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہاں کھلے میں رفع حاجت کا رجحان ایک سال کے عرصے میں ختم کیا جاچکا ہے۔اس کے علاوہ ایک ایسا منصوبہ جو ہمیں ہر سال اسموگ کی صورت درپیش ہوتی ہےاور جس کا حل ناگزیر ہے وہ بھٹوں کا زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل ہوناہے۔ پنجاب حکومت نے تقریباً 8 ہزار بھٹوں کو مکمل طور پر زگ زیگ ٹیکنالوجی پر شفٹ کروا کے پنجاب کو اسموگ فری بنانے کیلئے ماحولیاتی اعتبار سے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے بھٹوں کی آلودگی میں 60 فیصد تک کمی واقع ہوگی۔

البتہ اس وقت سب سے بڑا چیلنج کورونا کی روک تھام ہے، جو اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔ عوام اس عید پر خود کو اگر کوئی تحفہ دے سکتے ہیں تو وہ یہی ہے کہ اس عید پر گھروں میں رہیں ورنہ کورونا کے پھیلائو کی وجہ سے پچھلے سال ہماری دو عیدیں پہلے ہی پھیکی رہی ہیں۔ اس لئے میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اگلی تمام عیدیں آپ خوشیوں کے ساتھ منائیں تو اس عید پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھر رہیں اور محفوظ رہیں۔ بازاروں میں ایس او پیز کی خلاف ورزی سے آپ اپنے لئے، کاروباری حضرات اور دیہاڑی دار طبقے کیلئے مشکلات پیدا نہ کریں۔کورونا کی وحشت خیزیاں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں۔عید کے موقع پر کم از کم اس شعر پر تو بالکل عمل نہیں کرنا،کہ

عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم

رسم ِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے ، دستور بھی ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)