دائرۂ اختیار کو سمجھیں

May 10, 2021

پاکستان نے مئی 1998میں جب ایٹمی دھماکے کئے تو اس پر اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ میں گرمی کے موسم میں افسروں کے ایئر کنڈیشنر چلانے پر پابندی لگا دی گئی۔ گاڑیوں کیلئے پٹرول آدھا کر دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ اس دوران بیوروکریسی میں ان قدغنوں پر بےچینی اور تحفظات جنم لے رہے تھے کہ اس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب اے زیڈ کے شیردل نے سول سیکرٹریٹ پنجاب میں افسروں کا ایک اجلاس بلایا اور انہیں بتایا کہ پاکستان اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے گونا گوں مسائل کا شکار ہے اس لئے سرکاری افسروں کی مراعات میں کمی کر دی گئی ہے۔ نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ریکٹر عظمت رانجھا بھی سول سیکرٹریٹ میں بطور سینئر افسر تعینات تھے، اُنہوں نے اپنی باری پر بولتے ہوئے کہا کہ سول سرونٹس ایک خاص کلاس ہے۔ یہ پورے ملک سے مقابلے کے امتحان پاس کرنے کے بعد چنے جاتے ہیں۔ عظمت رانجھا نے پھر اپنے تعلیمی کیریئر کے بارے میں بھی بتایا کہ وہ کتنے بڑے اسکولوں اور کالجوں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے چیف سیکرٹری اے زیڈ کے شیر دل سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر کام کرنے کا ماحول ٹھیک نہیں ہو گا تو کارکردگی متاثر ہو گی۔ انہوں نے یہ سمجھانے اور بتانے کی کوشش کی کہ گرمی کے مہینے میں اے سی کمروں میں نہ چلے تو کام صحیح طریقے سے نہیں ہو سکے گا۔ عظمت رانجھا کی بات سن کر سابق چیف سیکرٹری اے زیڈ کے شیر دل نے کہا کہ اگر آپ چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے تو آپ کے پاس چوائس تھی، آپ کوئی اور نوکری کر سکتے تھے۔ چیف سیکرٹری کی اس بات پر کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ اے زیڈ کے شیر دل نے انہی الفاظ کے ساتھ سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میٹنگ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ میں نے آج یہ واقعہ اس لئے دہرایا ہے کہ سیالکوٹ کی اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف اور معاونِ خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے درمیان جو پیش آنے والا واقعہ کوئی انہونی نہیں۔ سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی شروع سے آپس میں کبھی نہیں بن سکی ہے لیکن اب ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ ہر آئے دن یہ کہا جا رہا ہے کہ بیوروکریسی تعاون نہیں کررہی۔ بیوروکریسی میں COLONIAL LEGACYمکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ بیوروکریسی تاریخی طور پر بہت تگڑی تھی۔ انہیں پہلی مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے تابع بنانے کیلئے سی ایس پی افسروں، جو ڈی ایم جی گروپ تھا، کی علیحدہ ٹریننگ ختم کرکے کامن ٹریننگ پروگرام (CTP)شروع کروایا جس میں ڈی ایم جی گروپ کے ساتھ دیگر تمام گروپوں کی ٹریننگ اکٹھی کر دی۔ اسی دوران ڈی ایم جی افسروں کی تعیناتیوں کی سیکورٹی کے ساتھ ساتھ ڈی ایم جی کی سروس تبدیل نہ ہو سکنے کا جو تحفظ حاصل تھا، وہ بھی ختم کر دیا گیا۔ سی ایس پی افسر انتہائی طاقتور تھے، وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتے تھے کیونکہ وہ ریاست کی نمائندگی کرتے تھے۔ بیوروکرسی کو دوسرا بڑا ڈینٹ پرویز مشرف نے ڈالا۔ اِس تناظر میں اب سیالکوٹ میں لگنے والے تھیٹر کی بات کرتے ہیں۔ سونیا صدف نئی نئی اسسٹنٹ کمشنر بنی ہیں۔ امریکہ کی ٹاپ ٹین یونیورسٹیوں میں سے ایک کارنیل یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔ اپنے کامن میں ہی نہیں بلکہ پورے تعلیمی کیریئر میں ٹاپ پر رہی ہیں اور سول سروس میں ایک ڈیکوریٹیڈ افسر سمجھی جاتی ہیں۔ انہیں شاید اس بات کا مکمل طور پر احاطہ نہیں کہ بیوروکریسی پچھلی دو دہائیوں یا پھر اس سے بھی زیادہ عرصہ سے سیاست دانوں کے ساتھALIGNEہو چکی ہے جس سے کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا سیاست دانوں پر انحصار بڑھ گیا ہے۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ زیادہ تر سیاسی اکابرین اپنے حلقے کے نا ہونے والے کام کے بارے میں استفسار کرتے ہیں تو بیوروکریسی قواعد و ضوابط کے تحت جب ان کاموں پر اعتراض اُٹھاتی ہے تو نتیجتاً سیاسی اکابرین اپنے غصے کا اظہار اِس طرح کے واقعات میں نکالتے ہیں۔ سیاست دانوں سے روابط سے کرپشن سمیت دیگر قباحتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ بیوروکریٹس ان حالات کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست دان نااہل اور کرپٹ ہیں اور کام کرنا نہیں جانتے۔ بیوروکریٹ سمجھتا ہے کہ تمام اختیارات اس کے پاس ہیں۔ اسی سوچ کے چکر میں سونیا صدف نے بھی یہ سوچا ہوگا کہ وہ زیادہ اہل ہیں لہٰذا معاملات کو اپنے طریقے سے دیکھنا چاہتی تھیں جس کے نتیجے میں معاونِ خصوصی سے بحث کر بیٹھیں۔ یہ نوجوان افسر یہ سمجھتی ہیں کہ وہ بیوروکریٹ کلاس کی نمائندگی کر رہی ہے لیکن وہ شاید ان حقائق سے واقف نہیں کہ اب بیوروکریٹس بھی سیاست دانوں کے ساتھ نتھی ہو گئے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف کو تھوڑی میچورٹی دکھانا چاہئے تھی۔ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی انڈرسٹینڈنگ ہونی چاہئے۔ بیوروکریٹس بھی کسی کے ذاتی ملازم نہیں ہوتے، انہیں ذاتی ملازم سمجھنے کا سلسلہ 30سال پہلے شروع ہوا لیکن پچھلے 15برسوں میں تو سیاسی حکومتوں نے انہیں ذاتی ملازم کے طور پر ہی ڈیل کیا۔ اس سے پچھلے دور میں تو افسروں کی سب کے سامنے بےعزتی کرنے کے علاوہ کھڑے کھڑے انہیں معطل کر دیا جاتا رہا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو اپنے اپنے دائرہ اختیار کی شاید سمجھ بوجھ ہی نہیں۔ بیوروکریٹ کو عوامی مینڈیٹ کی عزت کرنی ہے جبکہ سیاست دانوں کو یہ دیکھنا ہے کہ وہ ریاست کے ملازم ہیں، کسی کے ذاتی نہیں۔ اگر سیالکوٹ جیسے واقعات سے اجتناب نہ کیا گیا تو مستقبل میں ایسے مزید واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔سیاست دان اور افسر شاہی ایک دوسرے کے دائرہ اختیار کو ماننا ہی نہیں چاہتے۔ افسر شاہی کو نظر آ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس پالیسیوں پر عملدرآمد اور سمجھنے کی اہلیت نہیں، اس لئے وہ فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ قصہ مختصر کہ دونوں ہی حالات کو سمجھ نہیں رہے۔ حکومت کو چاہئے کہ افسروں کو خود مختاری دے تاکہ وہ آپ کے ایجنڈے کو پورا کرنے کیلئے صحیح پالیسیاں بنا سکیں اور نظام میں بہتری کیلئے صحیح فیصلے کر سکیں۔