بدنام ہیں ساقی کی نگاہوں کے اشارے!

May 10, 2021

پاکستان تحریک انصاف کی پونے تین سال کی حکومت میں چوتھے وفاقی وزیر خزانہ کا منصب سنبھالنے والے شوکت ترین نے اگلے روز اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں جو کچھ بھی کہا، اس کے بارے میں لازمی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تحریک انصاف کا بیانیہ ہے؟

شوکت ترین نے نہ صرف عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے پاکستان کے لئے طے کردہ اہداف کو ناقابلِ عمل قرار دیا بلکہ انہوں نے بین السطور حکومت کی معاشی پالیسیوں خصوصاً آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کو بھی غلط قرار دے دیا۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ آئندہ بجٹ میں نہ تو بجلی کے نرخوں ( پاور ٹیرف ) میں اضافہ کیا جائے گا اور نہ ہی ریونیو کے اہداف بڑھائے جائیں گے اور یہ بھی واضح کر دیا کہ ہم آئی ایم ایف کے بتائے گئے طریقے سے نہیں بلکہ اپنے طریقے سے ریونیو بڑھائیں گے۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مکمل خود مختاری دینے کی آئی ایم ایف کی شرائط سے بھی اتفاق نہیں کیا اور اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ ملک کا سیاسی درجہ حرارت کم کیا جائے اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو ’’ میثاق معیشت ‘‘ ( چارٹر آف اکانومی ) پر اکٹھا کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کو بروئے کار لانے کا بھی عندیہ دیا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد نہ کرنے کی بات کرکے تحریک انصاف کی معاشی پالیسی میں تبدیلی کی نشاندہی کر دی ہے۔ اس طرح انہوں نے ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے کےلئے سیاسی مفاہمت کی بات کرکے تحریک انصاف کے اب تک کے سیاسی بیانیہ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کیا تحریک انصاف کی قیادت اور حکومت اپنی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کو اس طرح تبدیل کرنا چاہتی ہے، جس طرح شوکت ترین کہہ رہے ہیں ؟ تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی پالیسی کا زیادہ تر انحصار آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں میں طے کردہ اہداف پر رہا ہے اور اس حوالے سے اب تک بہت کچھ تباہ ہو چکا ہے۔ سیاست میں بھی تحریک انصاف کا بیانیہ یہ رہا ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت چوروں اور لٹیروں کا ٹولہ ہے۔ اس کے ساتھ مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ تحریک انصاف کی قیادت اگرچہ ’’ یوٹرن ‘‘ لینے میں ماہر ہے اور وہ اسے سیاست کا لازمی حصہ سمجھتی ہے لیکن کیا وہ بنیادی معاشی اور سیاسی پالیسیوں پر یوٹرن لے سکے گی اور اگر یوٹرن لے گی تو پھر وہ خود کہاں کھڑی ہو گی ؟

حکومت کی اب تک جو کارکردگی رہی ہے، اس کے تناظر میں شوکت ترین کا سیاسی اقتصادی ( پولٹیکل اکنامک ) ایجنڈا موجودہ بحران میں واحد حل نظر آتا ہے کہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے خلاف مزاحمت کی جائے اور اس مزاحمت کےلئے ملک کو سیاسی طور پر متحد کیا جائے۔ سیاسی معیشت ( پولٹیکل اکنامکس ) کا ادراک کیا جائے۔ معیشت کبھی سیاست سے الگ نہیں رہی۔ کسی ملک کی معیشت اور سیاست کو دنیا سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ پاکستان کے جن سیاسی حالات میں تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے اور اسے حکومت ملی ہے، ان حالات کو کنٹرول کچھ اور قوتیں کرتی ہیں۔ ہم نے دنیائے عرب کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھا، جہاں ’’ بہار عرب ‘‘ کے نام سے ایسی خزاں مسلط کی گئی، جس سے کئی نسلیں نجات نہیں حاصل کر سکیں گی۔ عرب کی عظیم معیشتیں اور سیاسی طور پر مستحکم ریاستیں تباہ ہو گئیں۔ پاکستان بھی ان قوتوں کا ہدف ہے۔ پاکستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ لوگوں کیلئے سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے عالمی سامراجی طاقتوں کے ایجنڈے پر چلتے ہیں۔ شوکت ترین کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ ادارے گلا گھونٹ کر معاشی استحکام لانا چاہتے ہیں۔ تاریخ میں ان اداروں کو ’’ غربت کے آقا ‘‘ جیسے القاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا ہر پروگرام متعلقہ ملک کی تباہی پر ختم ہوتا ہے اور یہی ان کا سیاسی ہدف بھی ہے۔ تحریک انصاف کا سیاسی بیانیہ ملک میں سیاسی پولرائزیشن کو گہرا کرنے کا سبب بنا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو وسیع تر تناظر میں حالات کا ادراک کرنا ہو گا ۔اس کی قیادت ہی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ شوکت ترین جو باتیں کر رہے ہیں، ان کا پس منظر کیا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت کی کارکردگی سے ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں تحریک انصاف کی حمایت کرنے والے حلقے بھی سوچ رہے ہوں۔ حالات تبدیلی اور تغیر کے متقاضی ہیں۔ اگر سیاسی پولرائزیشن کم کرکے ایک ہی سیاسی آواز کے ساتھ آئی ایم ایف کو قائل کرنے اور قومی معاشی پالیسی بنانے کی کوشش کی جائے توملک کے لیے بہتر ہو گا۔ ورنہ چیزیں اس طرح نہیں رہیں گی، جس طرح سوچا جا رہا ہے۔ شوکت ترین نے بھی تو معروضی حالات کی بات کی ہے۔ بقول ساغر صدیقی

مائل بہ تغیر ہے یہاں فطرت بے تاب

بدنام ہیں ساقی کی نگاہوں کے اشارے