جیت تومل گئی!

May 10, 2021

رابطہ…مریم فیصل
برطانیہ میں ہونے والے حالیہ انتخابات نے یہ تو ثابت کر دیا کہ برطانوی عوام ٹوری پارٹی یعنی موجودہ حکمراں جماعت سے کس قدر خوش ہیں ۔ یورپی یونین سے علیحدگی یعنی بریگزٹ اور گزشتہ سال سے جاری کورونا وبا ، ان حالات میں حکومت نے عوام کو کتنا راضی کیا اس کا جواب کنزرویٹو کو بخوبی جیت کی شکل میںمل چکا ہے اور جیت بھی ایسی ملی ہے کہ اس بار ان علاقوں پر بھی حکمراں جماعت نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے جن کا کنٹرول اب تک ملک کی دوسری بڑی جماعت لیبرکے پاس رہا ہے ۔ ان علاقوں میں بھی کنزرویٹو کو واضح اکژیت سے کامیابی مل گئی ہے ۔ البتہ یونائٹڈ ویلز میں لیبر نے اکثریت تو نہیں لیکن کنزرویٹو کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کر کے ایک طرح کی خودمختار حکومت بنانے کی پوزیشن بنالی ہے تاہم انگلینڈ میں بورس جانسن حکومت نے زیادہ اکثریت حاصل کر کے لیبر کو غیر مستحکم جماعت بنا دیا ہے، اسی لئے لیبر کے موجودہ لیڈر نے ڈپٹی لیڈر کو ہی برخاست کر کے اس بے یقینی میں ایک اور پتھر پھینک دیا ہے کہ لیبر جماعت کی لیڈر شپ ہی نہیں برطانوی عوام میں اس کی اہمیت بھی کمزور ہو چکی ہے ۔ اس وقت کی لیبر جماعت جسے برائون اور بلیئرجیسے لیڈرز نے چلایا اور ان کی سر براہی میں متوسط اور مزدور طبقے کی آواز بننے والی پارٹی نے ملک میں عوامی سطح پر بہت پزیرائی سمیٹی، اب اپنی اہمیت کھوتی جارہی ہے ، دراصل لیبر پارٹی کا ایجنڈا تھا عام اور غریب عوام کو وہ سارے بینیفٹس گھر بیٹھے فراہم کر دئیے جائیں جن کی مدد سے وہ گھر ،خوراک، لباس جیسی بنیادی سہولیات کے لئے ترستے نہ رہ جائے اور ملک کا یہ طبقہ امیر یا وائٹ کالرز کے مقابلے میں خود کو کم تر سمجھ کر پیچھے نہ ہوتا جائے ، اسی لئے لیبر کے زمانے میں ہی بینیفٹس کی بھرمار تھی جن کا فائدہ لوگوں نے خوب اٹھایا ۔ لیبر کا سب سے بڑا کارنامہ این ایچ ایس کا قیام تھا جس کی بدولت مفت علاج معالجے کی سہولت عوام کو میسر ہوئی اور عوام کو اس فکر سے آزادی مل گئی کہ بیماری کی صورت میں پہلے جیب دیکھے نہ کہ علاج کر واسکے ، لیبر کے کارنامے اپنی جگہ لیکن وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا،گزرتے وقت اور لوگوں کا حد سے زیادہ ان بینیفٹس پر انحصار ،اس صورتحال نے برطانیہ کے ٹیکس ادا کرنے والوں میں ایک بے چینی پیدا کر دی کہ ہم تو کما کر بھی اور اپنی کمائی پر اتنا ٹیکس ادا کر کے بھی ان مراعات سے محروم ہیں جو بطور ایک برطانوی شہری کے سب کو حاصل ہونی چاہیے تو پھر نچلا طبقہ اتنے فائدے کیوں سمیٹے ۔ اس سوچ کو آواز کنزرویٹو پارٹی نے دی اور امیر اور پڑھے لکھے طبقے کی آواز کو زیادہ بلند کر کے ٹوری پارٹی اوپر آتی گئی اور اب کنزرویٹو پارٹی ملک میں اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ گزشتہ 11سال سے اسی پارٹی کو حکمرانی ملتی رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ برطانوی عوام مراعات کے اس نظام کے خلاف ہیں جو ایک طبقے کو تو اس کی کم حیثیت کی وجہ سے فائدہ پہنچاتا رہے لیکن ٹیکس بھرنے والا اپنی جائز کمائی کے عوض ٹیکس بھر بھر کر خالی ہاتھ ہی رہے اور پھر جس طرح کورونا وبا کے دور میں حکومت نے اپنی موثر حکمت عملی سے وبا پر قابو پایا ہے اس کو بھی عوامی حلقوں میں پسند کیا گیا ہے جب ہی آج بورس جانسن اپنی جیت پر نازاں نظر آرہے ہیں اور ٹیم یوکے کو زیادہ یونائیٹ کرنے کی تیاری میں لگ گئے ہیں ۔