فرسودہ تصورات

May 11, 2021

بولٹن کی ڈائری۔۔۔۔ابرار حسین
6 مئی کو برطانیہ کے مختلف شہروں کی طرح بولٹن میں بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا، بولٹن برطانیہ کی سب سے بڑی کونسل ہے جو گریٹر مانچسٹر میں شامل ہے، اس وجہ سے بھی اس کونسل کے انتخابات پر اکثر مبصرین کی نظریں لگی ہوئی تھیں، اس بلدیاتی انتخابات میں ایک قابل ذکر فیکٹر یہ تھا کہ دونوں لیبر اور ٹوری پارٹیوں کی جانب سے 15 ایشیائی امیدواروں نے حصہ لیا تاہم کامیابی فقط 5 امیدواروں کے حصے میں آئی کورونا جیسے ماحول کے باوجود سب سے زیادہ گہما گہمی اور جوش و خروش ان حلقوں میں دیکھنے میں آیا جہاں پر ایشیائی امیدواروں کا ایک دوسرے سے مقابلہ تھا۔ بولٹن نیوز نے لکھا ہے کہ جمعہ کے روز یونیورسٹی آف بولٹن اسٹیڈیم میں بولٹن کونسل 2021 کے انتخابی گنتی کا انعقاد کیا گیا۔ جمعرات کو ہونے والے انتخابات اور ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر نتائج کی روشنی میں کنزرویٹو پارٹی کا امکان ہے کہ وہ سب سے بڑی پارٹی بننے کے بعد بولٹن کونسل کی قیادت کرتی رہے گی۔ انہوں نے مزید تین نشستیں حاصل کیں اور ایک ہار گئی اب ان کے پاس کونسل کے 60 میں سے 20 کونسلرز ہیں، لیبر نے بھی ایک مزید کونسلر کا اضافہ حاصل کیا اور ان ساٹھ نشستوں پر فائز ہونے کیلئے جن کا وہ دفاع کر رہے تھے اب ان کے پاس کل 19 کونسلرز ہیں باقی نشستیں لب ڈیم اور چھوٹی آزاد اور مقامی پارٹیوں پر مشتمل ہیں ۔ جمعرات کو بولٹن کی 20 وارڈز میں 21 نشستوں پر انتخابی معرکہ لڑا گیا جن پر 99 امیدوار کھڑے تھے۔ بولٹن نیوز کے مطابق اب یہ کونسل کسی بھی پارٹی کے مجموعی کنٹرول میں نہیں ہے۔ ایک دلچسپ مقابلہ ایسلی برج کی دو نشستوں پر ہوا جہاں پر کنزرویٹو نے ایک اپنی سیٹ کا بھرپور دفاع کیا اور ایک خالی نشست جیت لی یہاں سے پال ایکری (بی ایف سی) 311ہلری فیئرکلو کنزرویٹو 2969 جیمز ایل ڈی 380 کیون میلگن لب ڈیم 386 صفوان پٹیل لیبر 1025سیمویل دعمر کنزرویٹو 1746 اسٹیو سوٹن لیبر 897ووٹ لے سکے ایک اور اہم وارڈ سورویچ اور بلیک داڑ میں فرسٹ انڈی پنڈنٹس نے ایک سیٹ حاصل کی اسی طرح کئی دوسری وارڈز جہاں کنزرویٹو کاہولڈرہارس میں لاسٹک اور براملے کراس شامل ہیں جب کہ لیبر نے ٹانگ مورہپرگرین گریٹ لیور میں اپنا سولڈ برقرار رکھا الیکشن سے قبل جو لوگ مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کررہے تھے کہ فلاں وارڈ میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا وہ تمام تر قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں اور لیبر پارٹی کی کامیاب ہونے والی امیدوار شمیم عبداللہ جن کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا تھا کہ وہ بنگالی خاتون ہیں اور کامیاب نہیں ہو پائیں گی انہوں نے بھی اپنی نشست کا دفاع کرتے ہوئے کامیابی کو اپنے نام کرلیا ایک بات جو محسوس کی گئی ہے وہ ماضی کی طرح موجودہ انتخابات میں بھی پاکستانی کشمیری پس منظر رکھنے والے بعض امیدواروں کی مہم میں برادری ازم، کنبہ پروری اور علاقائیت کے تصورات تھے ،ان فرسودہ تصورات سے کمیونٹی کو جلد نجات حاصل کرکے بہتر لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے اور ایک ایسی نئی کھیپ جو یہاں کی تعلیم یافتہ ہو جنہیں مسائل کا پورا ادراک ہو کام کرنے کے اہل ہوں جن میں برادری ازم کا عنصر موجود نہ ہو اس کو آگے بڑھانا چاہئے تب جاکر کمیونٹی کے مسائل کا سدباب کیا جاسکتا ہے ورنہ جہاں سے چلے تھے وہی پر اٹکے رہیں گے۔