عیدالفطر محبت بانٹنے کا دن

May 11, 2021

تحریر:سید علی جیلانی۔۔۔سوئٹزر لینڈ
اُمت محمدی ﷺ کو اللہ کی بیشمار نعمتیں اور انعامات واکرامات عطا ہوئے ہیں، ہر مومن مسلمان کے قدم جب نئے اور اُجلے کپڑوں اور نئی چپلوں جوتوں اور خوشبوؤں کے ساتھ ” اللہ اَکبر اللہ اَکبر لا اِلہ اَلا اللہ و اللہ اَکبر اَللہ اَکبر وللہ الحمد کی تکبیر بلند آواز سے پڑھتے ہوئے جب مسجد کی جانب روانہ ہوتے ہیں تو خدا کا شکر اور اپنے پیارے آقاحضرت محمدمصطفیﷺ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یکم شوال کا مبارک دن نصیب ہوا ہے، ہم اپنے رب کائنات کی جانب سے ان گنت نوازشوں کا عظیم الشان دن عیدالفطر یا عید سعیدکے ناموں سے مناتے ہیں ،عیدالفطر در حقیقت اللہ کی طرف سے ان خوش بخت اور نیک بخت مسلمانوں کو بہترین اجرو صلہ ملنے کا دن ہے، جنہوں نے ماہ مقدس کو ا سکے تمام تر حقوق نماز، روزہ اور دیگر عبادات سے مزین کر کے گزارا ،عید الفطر اس تجدید ایفا کا دن ہے جو ہم نے رمضان کے تینوں عشروں میں رحمت، مغفرت اور جہنم سے خلاصی کی دعائیں کرتے کیا تھا، عید باہمی اتفاق و محبت بانٹنے کا دن ہے، عید لوگوں کے کام آنے اور ان کے دکھ درد بانٹنے کا دن ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عیدالفطر اپنا جائزہ اور محاسبہ کرنے کا دن بھی ہے کہ آیا جو رمضان اللہ نے ہمیں عطا کیا تھا ہم اس کا پاس رکھ سکے؟ اور اسے اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزار سکے؟ اور کیا ہم نے پورے ماہ میں جو تراویح، نمازیں، روزے اور مختلف عبادات کر کے رضائے خداوندی حاصل کرنے کی سعی و کوشش کی ہے اور توبہ و مغفرت کے ذریعے اپنے ایمان و روح کو تطہیر وتربیت کے دائرے میں رکھنے کا جو عزم مصمم کیا ہے، حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے روایت کیا ہے کہ جب عیدالفطر کی مبارک رات آتی ہے تو اسے ”لیلة الجائزة” یعنی انعام کی رات کے نام سے پکارا جاتا ہے جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں ”اے امت محمد ﷺ اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑے گناہ معاف فرمانے والا ہے پھر اس کے بعد اللہ رب العزت اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے، اے میرے بندو! مانگو کیا مانگتے ہو؟ میری عزت و جلال کی قسم آج کے روز اس نماز عید کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا (یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتری ہو) میری عزت کی قسم جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا، میری عزت و جلال کی قسم میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا، بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاؤ گے، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا” ایک مرتبہ عیدکے دن حضور اکرم ﷺ کے گھرمیں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا، جب آپ ﷺ عیدگاہ جانے لگے توحضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا ”آج آپﷺ کی کسی بی بی کے یہاں کچھ کھانے کو نہیں ہے” آپ ﷺ نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا ”یہ وہ وقت ہے کہ مجھ پر اتمامِ نعمت ہوا یہ وہ ساعت ہے کہ مجھ پر فقر کا اطلاق پورا ہوا تم غمگین نہ ہو” حضرت عائشہ نے فرمایا ”میں اس سے خوش ہوں مگر عادت کے موافق فقرا، بیوائیں اور یتیم آئیں گے اُن سے شر مندگی ہوگی”آپ ﷺ نے فرمایا ہمیں اور اُنہیں اللہ تعالیٰ دے گا” یہ کہہ کر آپ ﷺ عیدگاہ تشریف لے گئے جب واپس آئے تو دیکھا کہ آپ ﷺ کے دروازے سے فقراء کھانا لے کر جارہے ہیں۔ جب آپ ﷺ گھر میں تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے فرمایا ”صحابہ کرام کو بلا لیجیے آکر کھانا کھالیں”آپ ﷺ نے پوچھا یہ کہاں سے آیا، انہوں نے فرمایا”حضرت عثمان نے ساٹھ اونٹ آٹے، دس اونٹ روغن اور دس اونٹ شہد، سوبکریاں اور پانچ سو دینار نقد بھیجے ہیں” آپ ﷺ نے جوشِ شفقت و رحمت سے فرمایا ”اے اللہ تعالیٰ عثمان بن عفان پر حساب آسان کردے، حضرت جبرائیل نے حاضر خدمت ہوکر کہا ”اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی دُعا حضرت عثمان کے حق میں قبول کی، اُن سے روزِ قیامت حساب نہ ہوگا، عید کے دن لوگ خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے کاشانہ خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں، لوگوں نے تعجب سے عرض کیا یا امیر المئومنین! آج تو عید کا دن ہے، آج تو شادمانی و مسرت اور خوشی منانے کا دن ہے، یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا؟ آپ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا، اے لوگوں یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے، آج جس کے نماز، روزہ مقبول ہوگئے بلاشبہ اس کیلئے آج عید کا دن ہے، لیکن آج جس کی نماز روزہ کو مردود کرکے اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو اس کے لئے تو آج وعید ہی کا دن ہے اور میں تو اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا ہوں یا رد کر دیا گیا ہوں۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عیدالفطر اُمت محمدیﷺ کے لئے تمام فطری تقاضوں پر مکمل طور پر کامیابیوں کے ساتھ اِن پر قابو پانے کی خوشی اور مسرت کے اظہار کا ایک عظیم وسیلہ ہی نہیں بلکہ اِس حقیقی خوشی اور شادمانی کے موقع پردوسروں کو بھی اِس میں اُسی طرح سے شامل کرنے کا بھی درس دیتا ہے، یعنی کہ عیدالفطر کی نماز کی ادائیگی سے قبل ضروری ہے کہ صدقہ فطر ادا کردیا جائے جس کے اداکرنے کا مقصد یہ ہے کہ عید کی اِن خوشیوں میں اُن لوگوں کو بھی شامل کیا جائے جو اپنی غربت اور حکمرانوں کی عدم توجہ اور ملک میں دولت کی غلط تقسیم کی وجہ سے غربت اور تنگدستی کے باعث پریشان حال ہیں اور وہ اِس دن بھی جس کو اللہ نے خوشی کے دن کے طور پر منانے کا حکم دیا ہے، یہ بیچارے آج بھی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہیں اور روٹی سے بھی محروم ہیں وہ بھی ہماری اِس رقم سے اوروں کی طرح عید کی خوشیوں میں شامل ہوجائیں اور یوں معاشرے میں امیر اور غریب کا فرق ختم ہو جائے، دین اسلام میں عید کا دن امیر اور غریب سب کے لئے یکساں ہے، رمضان المبارک نے جو ہمیں عفو درگزر اور بھائی چارے اور اتحاد و یگانگت کا درس دیا ہے، اُسے ہمیں یاد رکھنا ہوگا اور عیدالفطر کے اِس مبارک اور خوشیوں اور مسرت والے دن پر عہد وفا کرنا ہوگا کہ آئندہ سال اگر ہماری زندگی رہی تو پریشان حال انسانیت کی خدمت کرنے کو اپنا نصب العین بنائے رکھیں گے، کیونکہ عیدالفطر کی اصل خوشی محبت بانٹنے میں پوشیدہ ہے۔