جمہوری نظام

May 11, 2021

ہمارے ہاں ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ جمہوریت، جمہور کے لئے ہے یا جمہور، جمہوریت کے لئے۔ البتہ یہ واضح ہے کہ جمہوریت سیاستدانوں کے لئے ضرور ہے کیونکہ جمہوریت کے ثمرات صرف سیاستدان ہی اٹھاتے ہیں۔ عوام جمہوریت کے ثمرات تک یا جمہوریت کے ثمرات عوام تک ابھی نہیں پہنچ سکے کیونکہ ہمارے ہاں جمہوریت صرف انتخابات کے انعقاد کو کہا جاتا ہے۔ جس کو جمہوریت کہا جاتا ہے اور جس سے عوام بہرہ ور ہوتےہیں وہ جمہوریت نہ تو کبھی یہاں پہنچی ہے، نہ ہی اس کو پہنچنے دیا جاتا ہے۔ جو سیاسی جماعتیں جمہوریت کا راگ الاپتی رہتی ہیں، کیا ان جماعتوں کے اندر جمہوریت ہے؟ ان جماعتوں کے اندر قیادت کا انتخاب کبھی جمہوری طریقہ سے ہوا ہے؟ ان دونوں باتوں کا جواب نفی میں ہے۔ سوائے جماعت اسلامی کے باقی تقریباً تمام جماعتوں میں قیادت موروثیت، دولت اور دھونس کی بنیادوں پر چلتی ہے اور پھر وہی قائدین جو خود غیر جمہوری طریقہ سے منتخب ہوتے ہیں بلکہ تاحیات قائد ہوتے ہیں۔ عوام کو جمہوریت کا سبق پڑھاتے ہیں۔ کیا یہ عوام کو بےوقوف سمجھنا نہیں ہے؟ آپ کسی عام مرد و عورت سے جمہوریت کے صرف نام اور مطلب کا پوچھیں وہ شاید ہی اس کا مطلب بتاسکے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خود غیر جمہوری طریقہ سے جماعت کی سربراہی پر قابض ہونے والے فوجی حکمران کو آمر کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے۔ واقعی ان کے لئے تو بہتر ہے۔ لیکن عام آدمی کو کونسا نظام چاہئے یہ آج تک کسی نے اس سے نہیں پوچھا۔ عام آدمی کا کام صرف ووٹ دینا ہے نہ اس کے بعد اس کا کوئی حق ہے نہ کوئی پوچھنے والا ہے۔ میرامقصد ہرگز یہ نہیں کہ ملک میں فوجی حکومت ہونی چاہئے، نہ ہی میں جمہوریت کا مخالف ہوں۔ میں سب سے زیادہ جمہوریت پسند ہوں۔ لیکن وہ جمہوریت جو جمہور کی آواز ہو۔ وہ جمہوریت جو عام آدمی کو اس کے بنیادی انسانی اور شہری حقوق دلائے۔ وہ جمہوریت جس میں عام آدمی کی عزت نفس اور جان و مال محفوظ ہو اور جس میں چادر اور چار دیواری محفوظ ہو۔ ورنہ چند لوگوں کے لئے قائم جمہوریت سے عوام کا کیا لینا دینا۔ اور جس میں عام آدمی کی اہمیت ووٹ کی پرچی کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ کیا جمہوریت کے نام پر عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جاتا؟ اور یہ عمل بار بار نہیں دہرایا گیا۔ قوم موازنہ کرے کہ اس کو جمہوری حکومتوں میں کیا فوائد ملے اور غیر جمہوری حکومتوں میں کیا نقصان ہوا۔

عام آدمی پہلے کی طرح آج بھی دھکے کھا رہا ہے۔ ہر آنے والا جمہوری حکمران پچھلے کو بخشواتا ہے۔ محترم سیاستدانوں کو سمجھنا چاہئے کہ وہ عام آدمی کو وہ کچھ نہ دے سکے جو وہ چاہتا ہے۔ عام آدمی کو باعزت روزگار چاہئے۔ اشیائے ضروریہ سستی اور مہنگائی سے نجات چاہئے۔ ایسے قوانین چاہئیں کہ جن کے ذریعے اس کو عدالتوں سے آسانی کے ساتھ فوری اور سستا انصاف ملے۔ صحت، تعلیم، پانی چاہئے اور جابر، ظالم اور بدمعاشوں سے نجات۔قبضہ، چینی، آٹا، بجلی اور گیس مافیا سے نجات ۔تھانہ کلچر کا خاتمہ چاہئے۔ کیا کسی جمہوری دور میں عام آدمی کو یہ سب چیزیں ملیں؟ آج انصافی حکومت میں عوام کو انصاف ملا؟ کیا عام آدمی کی زندگی میں معمولی سی بھی بہتری آئی؟ یا اس کے حالات پہلے سے بھی بدتر ہوگئے۔ آج ایک کلو چینی کے لئے ذلیل و خوار ہونے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی بہتری کے لئے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیئے۔ مہنگائی نے عوام کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا ہے۔ کیا عوامی مسائل اور مشکلات کا حل ان سرکاری فرمودات سے ممکن ہوا جن میں سابق حکمرانوں کو چور اور ڈاکو گردانا جاتا ہے؟ اور ان سے حاصل وصول بھی کچھ نہ ہوسکا۔ یہ جمہوریت ہی ہے جس میں جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدان حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں، ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ کونسا الزام ہے جو انہوں نے ایک دوسرے پر نہ لگایا ہو۔ گلی محلے کی لڑائی کی طرح دشنام طرازی اور گالم گلوچ کے علاوہ کیا حاصل ہوا۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں میڈیا کی گردن پر گھٹنا رکھا جاتا ہے اور اس کی آواز کو بند کیا جاتا ہے۔ کیا یہ جمہوریت ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد، جو حکمرانوں کے مفاد میں نہ ہو، درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔

اگر جمہوریت اور آمریت کا یہ کھیل تماشہ اسی طرح چلتا رہا تویہاں عام آدمی اسی طرح زبوں حالی کا شکار رہے گا اور ملکی ترقی جمود کا شکار۔ ملکی ترقی اور عام آدمی کی زندگی میں خوشحالی اور بہتری کے لئے صدارتی نظام ہی بہتر ہے اور ایسا نظام جس میں سیاسی مداخلت ہو نہ شراکت اور نہ ہی اس میں اسٹیبلشمنٹ کا اثر ہو۔ ویسے بھی فوج کی طرف سے متعدد بار واضح کیا گیا ہے کہ اس کا ملکی سیاست اور حکومت کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے اس لئے بار بار فوج کو سیاست میں گھسیٹنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ فوج اور حکومت ایک صفحے پر اور سلیکٹرز وغیرہ کے گستاخانہ اور جھوٹے بیانات سے گریز کرنا چاہئے۔ اب سب کو ملک و قوم کے لئے سوچنا چاہئے۔ اپنے لئے تو بہت سوچا اور کیا۔ اب نظام کی تبدیلی ہوگی اور ملک کی ترقی ہوگی۔ عوام کی خوشحالی کا دور آئے گا۔