منی ایچرز، اسلام کے سنہری دور کی داستان سناتی ہیں

May 12, 2021

ریاض(مانیٹرنگ ڈیسک)مسلمانوں کی پوری تاریخ منی ایچرز (چھوٹی تصویروں، فن پاروں) اور قلمی نسخوں کی بھرپور ترویج و حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہے۔ عرب دنیا میں چھوٹے فن پارے کا مطلب کاغذ (وصلی) پر بنائی گئی چھوٹی سی تصویر ہے، جس کے ذریعے عرب فن کاروں کے کام کو محفوظ بنایا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تصاویر قابل قدر فن پاروں کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں اور اب اسلام کے سنہری دور کے بارے میں داستان سناتی دکھائی دیتی ہیں۔انہی تصویروں کی روایت سے گاہے بگاہے محققین نے عرب اور خاص طور پر اسلامی تہذیب کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد لی ہے۔اسلامی سکالرز نے ان فن پاروں کو چار اقسام میں تقسیم کیا ہے، جن میں عرب، انڈین، عثمانی اور فارسی فن پارے شامل ہیں۔عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق 1988 میں قائم ہونے والی شاہ عبدالعزیز لائبریری نے اپنے قیام کے بعد سے چھوٹے فن پاروں اور قلمی نسخوں کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے تاکہ عرب اور اسلامی ورثے کو بچایا جا سکے اور محققین کو اس تک رسائی حاصل ہو۔ لائبریری کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بندر المبارک کہتے ہیں کہ لائبریری میں تقریباً آٹھ ہزار اصلی قلمی نسخے موجود ہیں جنہیں ڈیجیٹل شکل دے گئی ہے۔لائبریری نے زیادہ قلمی نسخے(وہ کتابیں جو پرنٹنگ پریس کی عدم موجودگی کے باعث قدیم زمانے میں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں) اور تصاویر اپنے وسائل سے خریدیں۔یہ عطیہ نہیں تھا۔ قلمی نسخوں کی خریداری کے لیے مخصوص شرائط موجود ہیں۔ نایاب، قدیم اور فن کا بہترین نمونہ ہونا ان کی امتیازی خصوصیات میں شامل ہے۔