امنِ عالم بھی، یا فکر امنِ عالم ہی؟

May 12, 2021

کرۂ ارض پر ہزارہا سال کی زندگی میں انسانی زندگی کی سب سے عظیم کامیابی یہ ہے کہ اس نے محفوظ اور آرام دہ زندگی کا ایک راز پالیا۔ بلاشبہ اس عظیم کامیابی میں آدم کو خالقِ انسان کی سب سے بڑی عطا عقلِ سلیم کے مسلسل اور بہترین استعمال نے ہی کمال دکھایا لیکن یہ کارنامہ تو انسان کا ہی ہے کہ اس نے اپنی ابتدائی زندگی سے تادم، جبکہ ہر آسمانی مذہب میں دنیا کے جلد فنا ہونے کا بیانیہ عام ہو رہا ہے، تجسس کی جبلت کو فقط ’’تجسس‘‘ نہ رہنے دیا بلکہ اس سوال در سوال کی عادت اور پھر اس عادت کو راہِ کامران میں ایسا ڈھالا کہ خالقِ انسان کی بڑی عطا دماغ کے استعمال سے پیدا ہونے والے تجسس کو فوکس (مرکز نگاہ و دماغ) اور اسے سلسلہ ہائے سوالات میں ڈھال کر اسے (سوالات کو) منظم کھوج اور سائنسی انداز سے سنوار کر تحقیق کی شکل دے دی اور سوال در سوال سے جواب در جواب پاکر طرح طرح کے علوم کشید کئے جن کے اطلاق سے اپنی زندگی کو چار چاند لگا کر بالآخر ثابت کر ہی دیا کہ وہ کرہ ارض پر شر و شیطان کی موجودگی میں بھی نائب اللہ (خلیفہ) ہے۔ میں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی؟ گویا انسان کا تجسس ختم ہوا نہ تا قیامت ہو گا اور وہ اپنے تجسس، فوکس، سوال و تحقیق و علوم سے ان گنت ان ہونیوں کو ہونی میں تبدیل کر چکا اور کرتا رہے گا۔

اک بڑا سوال یہ ہے کہ خود شناسی سے کشید ہونے والی اپنی پہچان پر نازاں اور احساسِ تفاخر میں غرق ہو جانا ہی (کامل تو کیا ہونی) اطمینان بخش کامیابی ہے؟ یا انسانی فلاح و جلا کے سفر میں رکاوٹیں ڈالنے اور کاروانِ آدم سے متصادم ہونے کے لئے شر و شیطان کی کامیابیاں اور مقابل ہماری ناکامیاں اور شکست بھی کوئی معنی رکھتی ہے؟ کامیابیوں کا تول ناکامیوں کے مقابل وزن و حجم میں کتنا ہے؟ بنی نوع انسان کی اس پر کتنی نظر ہے؟ اس پر کتنے سوال کئے گئے؟ کیا جواب آئے؟ آج ارتقائی مسافت کی عظیم کامیابیوں کے بعد شر و خیر کے توازن و عدم توازن، غلبے اور مغلوب کی مقدار اور کیفیت و نوعیت کیا ہے؟ علم و جہالت، انصاف و ظلم، مواقع اور استحصال، امارت و غربت، شرافت و بدمعاشی، مراعات و محرومی، مرد و زن، بچوں اور بڑوں میں کتنے کتنے فرق و خلا ہیں؟ ہیں تو کتنے تلخ، کتنے اذیت و المناک؟ کون اس کا ذمے دار؟ امنِ عالم ہی باکمال ترقی مسلسل اور حیرت انگیز عروج کے بعد آج بھی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے یا انسانی جان اور انتہائی بنیادی ضروریات کے مقابل کوئی اور ترجیح نے اولین جگہ بنالی ہے؟

عالمی سیاست کے منظر پر فوکس کیا جائے، حاصل نظر و فکر پر سوال اٹھائے جائیں، اس کے زاویے گنے جائیں، انہیں سمجھا جائے، سوالوں کی مدد سے حاصل فہم کی بھی گہرائی میں اترا جائے تو پلہ واضح طور پر خسارے کا ہی بھاری نہیں ہے؟ حضرت تہذیب انسانی کے طویل ارتقائی سفر کے بعد کامرانیوں کی سمیٹ پر جتنے نازاں و مطمئن ہیں، اس سے کہیں بھاری بھرکم مختلف النوع انسانی المیے، نظری، تسلط، لوٹ مار، منافقت، تضاد اور ایک سے بڑھ کر ایک منفی حربے کا پلہ زمین کو چھوتا اور حضرت کے جھوٹے اطمینان کا پلہ سہانے خوابوں، نعروں، مذموم ارادوں، مکارانہ تلقین و ہدایت کو حسین بیانیوں، آئین و منشور پروگراموں اور معاہدوں، اعلانات اور ایجنڈے سے لپیٹے، آسمان کی طرف بلند ہوتا دیکھا جا سکے گا اور سفر کی کامیابیاں دونوں پلوں کے درمیان ڈگمگاتی ڈنڈی کی مانند معلوم دیں گی۔ گویا ترقی کے زور سے ہونے والی اونچ نیچ بھی مانند فریب ہے کہ آج بھی انسان عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اب سرحدوں کے تحفظ سے زیادہ انسانی جان اور فوڈ سیکورٹی کی فکر بڑھ رہی ہے۔ دیکھنے کے لئے فوکس، سوال در سوال اور تحقیق شرط ہے۔ غور تو فرمائیں! جنگ عظیم اول 1914-18کرۂ ارض کے فقط اوسط آباد خطے مغربی یورپ کی درمیانی چھوٹی پانچ اقوام کی دنیا بھر میں نو آبادیاتی کی بالادستی کے مقابل جرمنوں کے کہیں پیچھے رہ جانے کے ’’احساس محرومی‘‘ سے شروع ہوئی، جو پہلی وسیع تر تباہی کی جنگ کہلائی جس نے براعظموں کو لپیٹ میں لے لیا۔ مقابل بڑے چھوٹے کلونئیل ماسٹرز نے اپنے اتحاد اور کالونیز سے حاصل طاقت کے زور پر جرمنوں کو شکست دی جن کو ترکی کا اتحاد جب نصیب ہوا جبکہ وہ ’’مردِ بیمار‘‘ تھا۔ امن قائم ہوا تو اس کی عملی علامت لیگ آف نیشن، آغاز سے ہی بیمار ثابت ہوئی۔ اب نسلی برتری کے شدید احساس، خطرناک اسلحے اور منظم قوم پرستی کے زور پر جرمنوں نے مقلد اتحادی اٹلی کے ساتھ مل کر دوسری جنگ عظیم کا جو میدان لگایا اس کے جانی مالی خساروں نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہر جنگ پہلی کے فقط 24سال بعد اور وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحہ (ایٹم بم اور انٹر کانٹی نینٹل میزائل) کے توازن سے عالمی سرد جنگ صرف چار پانچ سال میں ہی برآمد ہو گئی۔ یورپ کی تباہی اور امن عالم کی فکر و اعتراف نے اقوام متحدہ تو بنا دی لیکن قوموں کا حق خودارادیت، سرحدوں کا احترام، بنیادی انسانی حقوق اور ان سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بےتوقیری بلکہ ذلت آمیز اور بار بار توہین، پھر عالمی ادارے کے نظام میں منافقت کے غلبے نے ابتدا سے ہی اس کے بنیادی کردار کو صفر کیا ہوا ہے۔ سرد جنگ میں جنگیں تو ہوتی رہی ہیں۔ اس کے پُرامن خاتمے کے باوجود آج ایشیا کے عالمی جنگ کا میدان بننے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، وہ خطرات جو مرضی کے قومی مفادات کی آڑ میں پیدا کئے گئے۔ یورپ میں تحریک احیائے علوم اور صنعتی انقلاب کے دو اڑھائی سال بعد انسانی ترقی کے عروج پر بھی اتنی عالمی جنگوں کا ہونا اور نئے نئے خطرات نے مسئلہ فلسطین و کشمیر جیسے سلگتے، جلتے بھڑکتے امن دشمن ماحول میںآج انسانیت کا سب سے بڑا سوال یہ نہیں بنا دیا کہ امن عالم بھی یا مسلسل فکر امن عالم ہی؟ حضرت صاحب کے لئے پہلی بہتر راہ تو یہ ہے کہ اسلحے کی بجائے سوال کی طاقت سے لڑنا سیکھا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)