لیبر پارٹی کی شکست

May 12, 2021

خیال تازہ … شہزادعلی
کنزرویٹو پارٹی اور اس کی حکومت کو کورونا ویکسین،گھر کی دہلیز پر عوام کو سہولیات کی فراہمی، فرلو اسکیموں نے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کر دیا، انگلش کونسلوں پر حکومتی پارٹی کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے اور ماضی میں جو یہ تصور تھا کہ جس پارٹی کی مرکز میں حکومت ہوتی ہے مقامی حکومتوں میں حزب اختلاف کو لوگ زیادہ ووٹ دیتے ہیں یہ تصور بھی اب ماند پڑتا محسوس ہوتا ہے اور جو کہا جاتا ہے کہ سیلز مین آخر کیا بیچیں گے یہ مقولہ شاید صادق ہوتا ہے کہ لیبر کے کیئر اسٹارمر کے پاس بھی شاید بیچنے کو کچھ بھی نہیں تھا جس وجہ سے ان کی لیبر پارٹی نے خراب نتائج دکھائے اور وزیراعظم بورس جانسن جو اپنی پارٹی کی کامیابی پر شاداں اور مسرور تھے کا رپورٹرز سے گفتگو میں بجا طور پر یہ کہنا تھا کہ انہوں نے بطور حکومت جو ترجیحات رکھیں وہ لوگوں کی ترجیحات تھیں تو شاید درست ہی کہا ہے پھر کئی معاملات ایسے تھے جن پر کورونا کے مخصوص ماحول کے باوجود لیبر لیڈر حکومت کو اکاؤنٹ ایبل کر سکتے تھے مگر ان کی زیادہ تر توجہ سابق لیڈر جیرمی کوربن اور ان کی باقیات سے نمٹنے پر شاید مرکوز رہی اور بعض عالمی معاملات جن پر لیبر پارٹی کی سوچ اور نظریات محکوم لوگوں کے ساتھ ہوتے تھے ان میں بھی ایک پالیسی شفٹ دکھائی دیتا ہے آپ فلسطین اور کشمیر کے عالمی مسائل ہی دیکھ لیں سر کیئر سٹارمر اور لیبر کی ماضی کی بعض لیڈر شپ میں سوچوں کا واضح تفاوت ہے ان کے اس طرح کے بعض معاملات پر طرز عمل سے لیبر پارٹی کے روایتی حمایتی حلقوں میں پارٹی سے علیحدگی کی تحریک نہیں پائی گئی مگر پہلے کی طرح کا لیبر کی حمایت کا جذبہ بھی اتنا مضبوط دکھائی نہیں دیتا یعنی برطانیہ کی بعض کمیونٹیز جس طرح کے پاکستانی کشمیری ہیں وہ اگر غالب اکثریت سے بدستور لیبر کے ساتھ ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ کنزرویٹو اور لب ڈیم میں بھی شاید انہیں اپنے لیے اپنی آبائی ممالک کی سیاست اور کشمیر سے متعلق معاملات پر پالیسیوں میں کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دیتا تاہم موجودہ لیبر لیڈر جس طرح پارٹی معاملات کو چلا رہے ہیں اور جس پارٹی کے اعلیٰ ترین پالیسی حلقوں میں پاکستان، کشمیر ی روایتی کمیونٹی کو ان کی قربانیوں کے مطابق جگہ نہیں دی گئی اور کشمیر پر لیبر پارٹی کے روایتی موقف سے انحراف کیا گیا اس کے باعث پاکستانی، کشمیری برادری شکوہ کناں ہے جب کہ قومی سطح پر بھی لیبر لیڈر کی کارکردگی پر اب سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور پھر شکست کے بعد انہوں نے پارٹی کی نائب انجیلا رینر کو پارٹی کی چیئر اور انتخابی کوآرڈینیٹر کے عہدے سے برطرف کردیا ان اقدامات کو اچھے طور پر نہیں دیکھا جارہا عام تاثر یہ ہے کہ لیبر لیڈر نے اپنی نااہلی اور ناکامی پر توجہ ہٹانے کے لیے ڈپٹی کو قربانی کا بکرا بنایا ہے ۔خیال رہے کہ لیبر پارٹی کئی کونسلز کا کنٹرول کھو بیٹھی ہے اور ہارٹول پول کے ضمنی انتخاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑاہےاگرچہ سر کیئر سٹارمر نے کہا ہےکہ وہ انتخابات کے نتائج کی پوری ذمہ داری لے رہے ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ اس طریقہ کار میں تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں جن سے وہ اپنی مہموں کو مستقبل میں چلائیں گے تاہم انجیلا کی برطرفی پر بہت سے کارکن اور رہنما اپ سیٹ ہوئے ہیں اسی تناظر میں لیبر کے سابق شیڈو چانسلر جان مکڈونل نے کہا ہے کہ انجیلا رینر کو برطرف کرنے کا فیصلہ اپنی ذمہ داری سے بزدلی کے ساتھ بچنا ہے اور انہوں نے سرکیئر پر اپنے آپ کو چھوڑ کر سب کی قربانی دینے کا الزام عائد کیا ہے ۔شیڈو کابینہ کے بعض ذرائع نے کہا ہے کہ انہیں اس پر بہت حیرت ہوئی ہے اور یہ کہ سب کو اس فیصلہ سے صدمہ پہنچا ہے۔ لیبر کے سکولوں کیلئے شیڈو وزیر ویس اسٹریٹنگ کا کہنا تھا کہ وہ انجیلا رینر کا بہت احترام کرتے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ اگلے عام انتخابات میں لیبر پارٹی کو فتح سے ہمکنار کرنے کے لیے سر کیئر کے ساتھ ان کی بھی ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ ہمیں لیبر کو بہتری میں تبدیل کرنے پر توجہ دینی چاہیے لیبر کے گریٹر مانچسٹر کے میئر اینڈی برنہام نے انجیلا رینر کو برطرف کرنے کے فیصلے کے خلاف اظہار خیال کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ وہ اس کی حمایت نہیں کرسکتے۔دوسری طرف لیبر نے ویلش پارلیمنٹ کے انتخابات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، مجموعی اکثریت سے ان کی محض ایک نشست کم ہو ئی۔ تاہم انگلینڈ میں کئی دھچکے لگے جس میں ڈورھم ، شیفیلڈ اور پلا ئی متھ سمیت کونسلوں کا مکمل کنٹرول ہاتھ سے نکل گیا۔کنزرویٹوز نے متعدد کونسلز کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ، جن میں نوٹنگھم شائر اور باسلڈن شامل ہیں ، نیز ہارلو سے لیبر کی شکست قابل ذکر ہے۔ سابقہ ​​ ہارٹ لینڈ ٹی ویلی میں لیبر کو موجودہ ٹوری میئر بین ہوچن سے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جن کے ووٹ بڑھ کر 73 فیصد ہوگئے ہیں البتہ لیبر پارٹی نے متعدد علاقوں میں میئرکا مقابلہ جیت لیا ہے اس میں ویسٹ انگلینڈمیں ٹوریز کو شکست اور لندن ،لیورپول ، لیورپول سٹی ریجن ، ڈونکاسٹر اور سالفورڈ سمیت دیگر پوزیشنز کو برقرار رکھا ہے۔