اسلامک بینکنگ کی ریکارڈ گروتھ

May 17, 2021

اسلامک بینکنگ پر میں کئی کالم لکھ چکا ہوں لیکن حال ہی میں اسلامک فنانس نیوز ملائیشیا کی ووٹنگ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مسلسل چوتھی بار کامیاب اسلامک بینکنگ فروغ دینے والے مرکزی بینک کا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ اس سے قبل ستمبر 2020 میں اسٹیٹ بینک کو ’’گلوبل اسلامک فنانس ایوارڈ‘‘ (GIFA) بھی دیا گیا تھا۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسلامک بینکنگ نے گزشتہ 5 سالوں میں ریکارڈ 30 فیصد گروتھ کی ہے۔ دسمبر 2020 میں اسلامک بینکنگ کے اثاثے 4269 ارب روپے، ڈپازٹس 3389 ارب روپے اور منافع 34فیصد اضافے سے 88.4ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے آئندہ 5سال میں موجودہ 18فیصد شیئر 30 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔

اسلامک بینکاری ایک ایسا نظام ہے جو سود سے پاک ہے۔ اسلام میں ربوا یعنی سود کی سختی سے ممانعت ہے جس کی وجہ سے دور جدید کے معاشی نظاموں میں بیروزگاری، افراط زر، عدم مساوات، غربت پائی جاتی ہے۔ اسلامک بینکاری اور سودی نظام میں اس نکتے پر اختلاف ہے کہ دولت (Wealth) کا اصل مالک کون ہے؟ اسلام کہتا ہے کہ دولت کا حقیقی مالک صرف اللہ ہے اور انسان اس دولت کا صرف امانتدار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور طے شدہ منافع کے خلاف ہے جبکہ اس کے برعکس سودی نظام کا مقصد طے شدہ منافع کے ذریعے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس سے معاشرے میں انارکی پھیل رہی ہے۔ 50سال پہلے مسلم دنیا کے ماہر شریعت، معیشت دانوں، علما نے اسلامک بینکاری کی بنیاد رکھی۔ اسلامک بینکنگ کے حوالے سے پوری دنیا میں سیمیناراور کانفرنسیں منعقد ہوئیں اور آئی ایم ایف نے اپنا شریعہ ڈپارٹمنٹ قائم کیا۔ مغربی مالیاتی اداروں نے بھی مسلم ممالک کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے اسلامک بینکنگ کے شعبے قائم کئے۔ دنیا میں اسلامک بینکنگ کی مجموعی مالیت 17کھرب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ دنیا کے 131ممالک میں اسلامک بینکاری میں ایران پہلے نمبر، ملائیشیا دوسرے نمبر، سعودی عرب تیسرے نمبر اور پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔

پاکستان میں اسلامک بینکاری کا نظام 1980 میں شروع ہوا۔ آج ملک میں روایتی بینکنگ میں اسلامک بینکنگ کا حصہ بڑھ کر تقریباً 20 فیصد ہوگیا ہے اور ملک میں 17اسلامک بینکوں کی برانچوں کا نیٹ ورک 3303تک پہنچ گیا ہے۔ آئندہ پانچ سالوں تک روایتی بینکنگ میں اسلامک بینکنگ کے ڈپازٹس 30 فیصد تک لے جانے کا ہدف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں اسلامک بینکنگ میں ایس ایم ایز، ایگریکلچرل، ایکسپورٹ اور مائیکرو فنانسنگ میں نئی پروڈکٹس متعارف کرائی جائیں کیونکہ غریب کاشتکار اب بھی مڈل مین سے 30سے 35فیصد شرح سود پر فصل گروی رکھواکر قرضے لے رہا ہے، اس کی پوری آمدنی قرضوں اور سود کی ادائیگی میں ختم ہوجاتی ہے ۔ بزنس کو ملک اور بیرون ملک فروغ دینے میں جب ہمارا گروپ روایتی بینکنگ نظام میں بری طرح جکڑا گیا اور ذاتی سرمایہ کاری کے ساتھ بینکوں کے اربوں روپے کے سودی قرضے کاروبار کا حصہ بنتے گئے تو مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے کاروبار کو فروغ دے کر دراصل آخرت کیلئے جہنم کمارہا ہوں اور یہ جاننے کے بعد کہ سودی بینکاری اور سودی کاروبار اللہ سے جنگ ہے۔ اس احساس ندامت پر میں نے 3 فروری 2014 کے اسلامی بینکاری پر لکھے گئے کالم میں اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے نیت کی کہ ان شاء اللہ بہت جلدمیرا گروپ سودی بینکاری سے نجات حاصل کرکے شرعی بینکنگ کا نظام اپنالے گا، چاہے اس کیلئے ہمیں اپنے اثاثے ہی کیوں نہ فروخت کرنا پڑیں اور پھر 19مئی 2014 کے کالم میں، میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے نہایت خوشی سے یہ بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سچی نیت اور دعائوں کی بدولت صرف 3مہینے میں مجھے اور میرے بھائی اشتیاق بیگ کو اربوں روپے کے سودی قرضوں سے نجات دلادی جس سے مجھے کاروبار میں برکت کے علاوہ زندگی میں سکون حاصل ہوا ہے ۔

اسلامی بینکاری جسے غیر سودی مالیاتی نظام کہا جاتا ہے، پاکستان سمیت دنیا میں نہایت تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ 1975 سے 1990 تک اسلامک بینکاری کی ترقی کے سفر میں 70 اور 80 کی دہائی میں اسلامک بینکنگ اکائونٹ کھولنا، رقم کی منتقلی اور لوگوں کو اسلامی سرمایہ کاری و تجارت کیلئے مشورے دینا شامل تھا۔ 1980 سے 1990 کے دوران اسلامی بینکنگ میں میوچل فنڈز، تکافل اور اسلامک بونڈز جاری کئے گئے جبکہ1990 سے 2010 کے دوران اسلامک بینکنگ کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا اور وینچر کیپیٹل، مائیکرو فنانس، پروجیکٹ فنانس، ایکویٹی فنانس، رئیل اسٹیٹ، کموڈٹی مارکیٹ اور کارپوریٹ بینکنگ جیسی سرگرمیاں عمل میں آئیں۔ آج اسلامی بینکاری کا دخل مالیات کے ہر شعبے میں ہے۔ دنیا کے ہر بڑے بینک نے اسلامی بینکاری کا علیحدہ شعبہ قائم کررکھا ہے جبکہ ملائیشیا نے اسلامی اور غیر اسلامی دونوں نظام معیشت رکھے ہوئے ہیں۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج آپ نے اسلامک بینکاری نظام اپنالیا تو اللہ تعالیٰ نہ صرف آپ کے رزق میں خیر و برکت عطا فرمائے گا بلکہ آپ کا یہ عمل اللہ اور رسولﷺ کی خوشنودی کا سبب بھی بنے گا۔