دعاؤں کو عداوت ہے اثر سے

May 17, 2021

کیا شریک کو شرک کہہ سکتے ہیں؟ یہ خاصا باریک سا نقطہ ہے اور اس پر اگر ہم کسی شریکے کا شکار ہو جائیں! پاکستان دوستی اور تعلقات کے معاملات میں اپنی زیادہ پہچان نہیں رکھتا۔ ہم دوست پسند ضرور ہیں مگر دوست نواز نہیں۔ ہم جن کو اپنا دوست خیال کرتے ہیں، وہ دوست سے زیادہ ہمارے مہربان ہیں۔ مہربانی بھی ایک طرح کی بھیک ہی ہوتی ہے جو بے بس ہو نے کی وجہ سے مانگی جاتی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ ہمارے مہربان ملک ہیں۔ برطانیہ کی مہربانی کہ اس نے ہمیں خاصی دیر تک کامن ویلتھ میں برداشت کیا، اگرچہ ہم فی الحال کامن ویلتھکے رکنہیں مگر برطانیہ اس حوالے سے مہربان نہیں ہے۔ ہم خطہ میں اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے برطانیہ کے بہت قریب ضرور ہیں مگر برطانیہ نے ہمارے ساتھ سلوک شریکے والا ہی رکھا ہے اور وہ پاکستان کے عوام کو خاطر میں نہیں لاتا۔ صرف اشرافیہ کو ہی احترام اور تحفظ دیتا نظر آتا ہے۔ ہمارا دوسرا دوست اور مہربان اورقدردان ملک امریکہ بہادر ہے۔ اس نے گزشتہ 30سال میں کئی روپ بدلے ہیں اور اس کا قول اور کردار بھی شریکے والا ہے۔ اس کے ہمارے سیاسی نیتائوں کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں اور عوام کے بارے میں وہ زیادہ بات کرتا نظر نہیں آتا، دنیا بھر میں ایک عرصہ تک انسانی حقوق کا علم بردار رہا۔ مگر ٹرمپ کے دورِ اقتدار میں اس کا وہ ملمع بھی اتر گیا۔ اس کا حسن سلوک اپنے دوستوں سے اچھا نہ رہا۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بداعتمادی رہی مگر اب وہ سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ اس کا دنیا میں ایک ہی پسندیدہ ملک ہے اور وہ ہے اسرائیل جو آ ج کل فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے اور اس میں اہم کردار اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یا ہو کا ہے جس کو اسرائیل کی جمہوریت ناقابل اعتبار کہتی ہے اور اس نے اپنی مقبولیت اور حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے فلسطین کی محکوم آبادی پر حملہ کر دیا اور تمام دنیا اسرائیل سے خوفزدہ نظر آ ر ہی ہے۔ پاکستان کے دوستوں میں ترکی اور چین دو ایسے ملک ہیں جن پر ابھی تک بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور ان سے ابھی تک کوئی شریکہ بھی نہیں ہے۔ ترکی اور پاکستان میں جمہوریت کی تاریخ ایک ہی طرح کی ہے، ترکی میں سیاست کا تناظر ہم سے قدرے بہتر ہے مگر وہ لوگ اپنی حیثیت منوانا جانتے ہیں۔ ترک افواج اس خطہ میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں اور ان سے اگر کوئی خطرہ محسوس کرتا ہے تو ان میں ایک ملک اسرائیل بھی ہے۔ مگر اسرائیل کے ساتھ ترکی کے سفارتی تعلقات بھی ہیں اور ایک زمانہ تک ترکی کی سیاست میں امریکہ کا بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے۔ پھر ترکی کی افواج نے بھی سیاسی لوگوں سے مکالمہ کیا اور اب بہت حد تک وہاں پر ترکی کی سیاسی اشرافیہ اور جمہوریت پسند گروہ ترکی افواج پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ترک کی معاشی اور مالی حالت مناسب ہے۔ امریکہ ترکی کے علاقائی کردار سے مطمئن نہیں ہے اور وہ سعودی عرب کے ذریعے اپنے نظریات کا پرچار کرتا رہتا ہے۔

چین ہمارا پرانا دوست اور قدردان ہے اور وہ پاکستان کی مدد بھی کرتا رہتا ہے۔ اگرچہ ہم لوگ ہی قابل اعتبار نہیں ہیں۔ جب سے سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا ہے، چین کو کافی شکایات رہی ہیں۔ مگر اس کی کوشش رہی کہ باہمی تعلقات کے تناظر میں ان کو طے کیا جائے۔ ہماری اشرافیہ گزشتہ چند برسوں میں چین کے بہت ہی قریب رہی ہے۔ سابق صدر آصف زرداری جن کو صدارت امریکہ کی مہربانی سے ملی تھی، وہ بھی چین کے ساتھ تعلقات بنانے اور اس پر نظر رکھنے کے لئے کئی مرتبہ چین گئے اور بہت سارے معاہدوں اور منصوبوں پر بات چیت کی، مگر وہ چین کے لئے بس ایک ہمدرد ہی رہے۔ دوسری طرف ہمارے سابق وزیراعلیٰ پنجاب بھی چین کی محبت میں سرشار نظر آتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ چین کو ان کی بے چین اسپیڈ سے بہت انسیت ہے مگر وہ بھی سی پیک کے منصوبوں میں چین کو زیادہ خوش نہیں رکھ سکے مگر چین نے پاکستانی عوام کو عزت ضرور دی ہے۔

ابھی حال ہی میں ہمارے وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کی یاترا کی ہے۔ بظاہر ان کا دورہ سعودی عرب کے بادشاہ کی خصوصی دعوت پر تھا۔ جب عمران خان وزیراعظم بنے تو سعودی عرب پاکستان پر مہربان تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا کہ ہمارا مہربان اسلامی ملک پاکستان سے ناراض سا ہو گیا اور ناراضی کی وجہ سے اس نے کشمیر کے معاملے پر بھی ہمارا ساتھ نہ دیا اور بھارت کو خصوصی حیثیت سے نوازا۔ سعودی عرب نے پاکستانیوں کو نظرانداز بھی کیا۔ مگر مکہ اور مدینہ کی وجہ سے پاکستان کے خلوص میں کمی نہ آئی۔ پھر افغانستان کے معاملہ میں سعودی عرب کا کردار نمایاں نہ تھا اور سعودی عرب کی جگہ قطر افغانستان میں امریکہ کی وجہ سے بہت اہم ہو گیا تھا۔ ٹرمپ سرکار کے خاتمہ کے بعد امریکی افواج اور امریکی سرکار کو پاکستان کی اہمیت کا احساس ہوا اور وہ سی پیک منصوبے سے ناخوش ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب کے ذریعے پاکستان کو رام کرنے کا سوچا اور یہ دورہ بھی اس پس منظر میں ہی تھا۔

وزیراعظم عمران خان اور پاکستان کی عسکری قیادت کو اندازہ ہے کہ دوستوں کی پہچان ضروری ہے۔ عمران خان اور عسکری قیادت پاکستان کی جمہوریت کو بچانے کیلئے سنجیدہ کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں مگر پاکستان کی سیاسی اشرافیہ جو اس وقت اپوزیشن کی حیثیت میں بھی اپنی پہچان نہ کراسکی اور سیاسی مفادات کے تناظر میں ایک دوسرے پر الزامات کی یلغار کرتی رہی اور اسے جمہوریت پسند نہیں۔ آسان سی بات ہے اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر عمران خان کی چھٹی کروا دو۔ مگر وہ عوام کے لئے کوئی مخلص کردار ادا کرتی نظر نہیں آتی ۔

ہم پاکستان کے دوستوں کا ذکر کر رہے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ دوستی کے چکر میں مخلص نہیں دکھائی دیتے اور پاکستان کے عوام کو نظرانداز کیا۔ دوسری طرف ہمارا ہمسایہ بھارت پاکستان کو کشمیر کی وجہ سے بڑا خطرہ خیال کرتا ہے۔ پاکستان نے کوشش کی مگر مودی سرکار دشمنی پسند کرتی ہے اور جلد ہی اس وبا کے بعد اس کا بھی خاتمہ ہونے والا ہے۔ پاکستان کو اس خطہ میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ پاکستان افغانستان میں امریکہ کی مدد کر سکتا ہے، اگر امریکہ اس پر بھروسہ کرے اور برطانیہ اپنی روش بدلے اور یہ فوری طور پر ممکن نہیں اور اس کی وجہ سے یہ دونوں دوست ممالک پاکستان کے خلاف آئی ایم ایف کے ذریعے سازش کرتے رہے ہیں۔ اب وقت ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے سامنے ڈٹ جائے اور مصنوعی جمہوریت کے خوف سے نکل کر ایک نئے نظام کے ساتھ عوام کو عزت دلوائے۔