داعش پاکستان میں محاذ کھول رہی ہے؟

May 17, 2021

حالیہ کچھ عرصے میں شدت پسند تنظیم داعش خراسان نے پاکستان میں بعض واقعات کی ذمہ داری ’ولایہ الباکستان‘ کے نام سے قبول کی ہے جس سے نئے سوالات پیدا ہورہے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی داعش نے ولایہ پاکستان کا نام استعمال نہیں کیا بلکہ وہ اکثر اوقات یہاں ہونے والے حملوں کےلئے داعش خراسان کا نام ہی استعمال کرتی رہی ہے۔لیکن اب ولایہ پاکستان کا نام استعمال کرنے سے لگتا ہے کہ شدت پسند تنظیم کی طرف سے پاکستان کےلئے الگ تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاہم ابھی داعش خراسان کی طرف سے رسمی طورپر اس کا اعلان سامنے نہیں آیا۔اس نئے گروپ نے مئی 2019 سے 2020 کے اختتام تک پاکستان میں کل 38 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں رواں سال جنوری میں بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری کے گیارہ مزدوروں کے اغوا کے بعد قتل کا واقعہ بھی شامل ہے۔ افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ خراساں (داعش) اور افغان طالبان کے درمیان شدید جھڑپوں کا سلسلہ ویسے تو گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے جن میں دونوں جانب سے اب تک سینکڑوں جنگجو مارے جاچکے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں پاکستان میں دولت اسلامیہ کے ہاتھوں افغان طالبان کے بعض اہم کمانڈروں کی ہلاکت سے ایسا تاثر جنم لے رہا ہے کہ جیسے داعش کے جنگجو افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں اپنی شکست کا بدلہ سرحد پار ان کے خلاف محاذ کھول کر لے رہے ہیں۔تاہم اس اہم پیش رفت کو سمجھنے کےلئے ہمیں کچھ واقعات کا تجزیہ کرنا ہوگا۔

چند دن پہلے پشاور میں افغان طالبان کے ایک اہم کمانڈر ملا نیک محمد رہبر کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ اس حملے میں تین دیگر افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (پاکستانی شاخ) نے بیان جاری کرکے قبول کی تھی۔ کمانڈر ملا نیک محمد رہبر کا تعلق پاکستانی سرحد سے ملحق افغان صوبہ ننگرہار کے مشہور پہاڑی سلسلہ تورہ بورہ کے ضلع خوگیانی سے تھا۔ یہ علاقہ ننگرہار میں داعش کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں جب پاک افغان خطے میں داعش کا ظہور ہوا تو جلد ہی ننگرہار کے بعض اضلاع ان کے زیر قبضہ آگئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا صوبہ اس خطہ میں داعش کا مضبوط گڑھ بن گیا۔

داعش نے ان علاقوں میں افغان طالبان کو شدید نقصان پہنچایا اور کچھ عرصے تک دونوں تنظیموں کے درمیان خونریز جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لیکن بالآخر افغان طالبان یہاں سے داعش کا مکمل صفایا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ افغان طالبان کے جن کمانڈروں نے داعش کا ننگرہار سے خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ان میں سرفہرست کمانڈر نیک محمد رہبر تھے، جنہوں نے ننگرہار میں داعش کے آخری گڑھ تورہ بورہ اور اس سے ملحقہ خوگیانی ضلع میں داعش کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔کمانڈر نیک محمد پر اس سے پہلے داعش نے ایک خودکش حملہ بھی کیا تھا مگر وہ محفوظ رہے تھے۔حالیہ مہینوں میں افغان طالبان کے ایک اور اہم کمانڈر کی ہلاکت کا واقعہ پشاور میں فروری کے مہینےمیں پیش آیا جب مسلح افراد نے مولوی عبدالہادی کو نشانہ بنایا۔ مولوی عبدالہادی لغمان صوبے میں طالبان کے گورنر تھے۔ اگرچہ اس قتل کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے، لیکن طالبان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مولوی عبدالہادی کے قتل میں دولت اسلامیہ ہی ملوث ہے۔

اس سال جنوری کے مہینے میں بھی طالبان کے ایک اور کمانڈر عبد الصمد عرف ملا تور پشاور کے قریب ایک حملے میں مارے گئے تھے۔ ان کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی کسی گروہ نے قبول نہیں کی ، مگر بعض ذرائع اسے خاندانی دشمنی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔داعش اور طالبان چپقلش کا سب سے بڑا واقعہ پچھلے سال اکتوبر میں پشاور میں اس وقت پیش آیا جب دولت اسلامیہ کے مخالف سمجھے جانے والے ایک افغان عالم دین مولوی رحیم ﷲ حقانی کے مدرسے پر ایک مبینہ خودکش حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں آٹھ طلبا جاںبحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے، مگر اس کا اصل نشانہ مدرسے کے مہتمم اور افغان عالم دین مولوی رحیم ﷲ حقانی تھے جو محفوظ رہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے نہ صرف افغان طالبان سے قریبی مراسم رہے ہیں بلکہ وہ اکثر اوقات داعش مخالف تقاریر بھی کرتے تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری کسی گروپ کی طرف سے قبول نہیں کی گئی لیکن پاکستان میں سیکورٹی اداروں کو یقین ہے کہ اس حملے میں سو فیصد دولت اسلامیہ ملوث تھی۔اس کے علاوہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بھی حالیہ کچھ برسوں میں افغان طالبان کمانڈروں پر حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل بلوچستان کے علاقے کچلاک میں افغان طالبان کے مرکزی امیر ملا ہیبت ﷲ اخونزادہ کے چھوٹے بھائی ملا احمد ﷲ اخونزادہ کے مدرسے پر مبینہ خودکش حملہ کیا گیا جس میں وہ چار افراد سمیت مارے گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی کسی تنظیم کی طرف سے قبول نہیں کی گئی۔ لیکن افغان طالبان کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس واقعے میں بھی دولت اسلامیہ ملوث تھی۔اسی طرح پچھلے سال جنوری میں بھی داعش نے کوئٹہ میں افغان طالبان کی ایک مسجد پر خودکش حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں ایک اعلیٰ پولیس اہلکار سمیت 15 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔مذکورہ واقعات کے تجزیہ سے لگتا ہے کہ دولت اسلامیہ خراساں افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں شکست کے باعث چونکہکمزور ہوگئی ہے لہٰذا موقع ملتے ہی وہ اپنے مخالفین کو سرحد کے اس پار نشانہ بنانے کی کوشش کررہی ہے بلکہ اب تو ایسا لگ رہا ہےکہ جیسے یہاں ان کی طرف سے افغان طالبان کے خلاف ایک محاذ کھولا جارہا ہےلیکن دوسری طرف پاکستان میں دولت اسلامیہ کے خلاف صفر برداشت کی پالیسی پائی جاتی ہے۔ ہمارے سیکورٹی ادارے سرحد کے اِس پار داعش کے وجود سے انکاری رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ چند سال پہلے تک پاکستان میں دولت اسلامیہ کا کوئی باقاعدہ اور منظم نیٹ ورک موجود نہیں تھا مگر ان واقعات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں شکست کے بعد اب داعش پاکستان میںقدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔