پاکستان میں بھی سائنوفام ویکیسن کی قلت دور کی جائے،عوام کا مطالبہ

May 17, 2021

کراچی (بابر علی اعوان / اسٹاف رپورٹر) ایسٹرازینیکا ویکسین کے مختلف ممالک میں مضر اثرات پر پاکستانی عوام اسے لگانے کے حوالے سے خدشات کا شکار ہیں ۔ عوام کا کہنا ہے کہ جو ویکسین دنیا کے دیگر ممالک کے شہریوں میں خون کے لوتھڑوں سمیت دیگر مسائل کا باعث بنی اسے پاکستان میں کیوں لگایا جا رہا ہے ؟ عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ لگائی جانے والی سائنوفام ویکیسن کی قلت دور کی جائے۔ دوسری جانب ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ویسے بھی چوائس نہیں ہے اس لئے جو بھی ہتھیار موجود ہے اسے وائرس سے بچاؤ کے لئے استعمال کیا جائے۔ ایسٹرازینیکا ویکسین محفوظ ہے جو کئی ممالک میں استعمال کی جارہی ہے جن ممالک میں اسے روکا گیا ہے ان کا خیال ہے کہ وہاں کورونا کا جو ویریئنٹ ہے اس پر یہ ویکسین کارگر نہیں جبکہ ویکسین سے خون کی کلوٹنگ (لوتھڑے) بننے کے واقعات بہت کم ہیں اس لئے عوام اس ویکسین کو ضرور استعمال کریں۔ انڈس اسپتال کے انفیکشیئس ڈیزیز ڈپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے جنگ کو بتایا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹس بہت کم ہیں۔ جہاں تک خون کی کلوٹنگ کی بات ہے تو جنرل پریکٹیشنرز یہ بات جانتے ہیں کہ خون کے لوتھڑے عام افراد میں بھی مختلف بیماریوں سے بن جاتے ہیں اور سال میں اس طرح کے متعدد کیسز آتے ہیں اس لئے اسے ویکسین سے جوڑنا درست نہیں۔ ویکسین سے خون میں لوتھڑے بننے کے کیسز انتہائی کم ہیں اس بنیاد پر جن ممالک نے اس پر پابندی لگائی بعد ازاں ان میں سے کچھ نے اسے دوبارہ استعمال بھی کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ویکسین کارگر ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وائرس کے جن تین ویریئنٹس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ ان پر ایسٹرازینیکا زیادہ موثر ثابت نہیں ہورہی وہ تینوں ویریئنٹس پاکستان میں نہیں ہیں۔ جنوبی افریقا اور برازیل میں جو ویریئنٹس بڑے پیمانے پر پائے گئے ہیں ان کے بارے میں یہ شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان پر یہ ویکسین کارگر نہیں اس لئے وہاں استعمال نہیں کی جارہی۔ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے بتایا کہ اس ویکسین کی بنیاد آکسفورڈ یونیورسٹی میں رکھی گئی جبکہ بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک نے اسے تیار کیا اس لئے یہ ایک اچھی ویکسین ہے۔