اسرائیلی مظالم اور سلامتی کونسل کی بے بسی

May 18, 2021

بیت المقدس غزہ اور مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر لڑاکا طیاروں، بھاری توپ خانے اور جنگی ٹینکوں کی مدد سے اسرائیل کے وحشیانہ حملے آٹھویں روز بھی جاری ہیں۔ فلسطینی شہداء کی تعداد 58بچوں سمیت دو سو سے تجاوز کر چکی ہے، ساڑھے بارہ سو شہری زخمی ہیں۔ 750گھر، 76فلیٹس اور 63سرکاری عمارات تباہ ہو چکی ہیں۔ صرف اتوار کو اسرائیلی درندگی سے 50شہری شہید ہو گئے امریکہ اور مغربی ملکوں کی جانب سے اسرائیل کی کھلی حمایت اور عملی پشت پناہی کی بدولت سلامتی کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم بھی صیہونی جارحیت رکوانے میں بری طرح ناکام ہو گئی ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم نے نہایت دیدہ دلیری سے اعلان کیا ہے کہ ہم جب تک چاہیں گے حملے جاری رکھیں گے۔ اتوار کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں بعض رکن ممالک نے اپنی تقریروں میں اسرائیل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں طاقت کے زور سے جغرافیائی تبدیلیاں لانے سے باز رہے شہری آبادیوں پر بمباری بند کرے اور فلسطینیوں کا قتل عام روکے مگر امریکہ نے ان مطالبات اور اسرائیلی حملوں کی مذمت کو مشترکہ اعلامیہ کی شکل میں جاری نہ ہونے دیا۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ حالات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اس مسئلے کا صرف دو ریاستی حل ہی پائیدار حل ہے جس کی رو سے فلسطین کو بین الاقوامی سرحدوں کے ساتھ آزاد ریاست تسلیم کیا جائے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی برادری پر زور دیا کہ شہری آبادی کے خلاف اسرائیل کے مظالم رکوانے کیلئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے چاہئیں اور القدس کے حوالے سے اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کیا جائے۔ سلامتی کونسل کا ایک ہفتے میں یہ تیسرا اجلاس تھا۔پہلے دو اجلاس امریکہ نے موخر کرا دیے اورتیسرے اجلاس میں کوئی قرارداد منظور نہ ہونے دی۔ اس دوران امریکی صدر بائیڈن کھلے عام نہتے فلسطینیوں پر حملوں کواسرائیل کے دفاع میں جائز قرار دیتے رہے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)نے فلسطین کے حق میں اوراسرائیلی مظالم کے خلاف قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ القدس اور مسجد اقصیٰ مسلم امہ کیلئے ریڈ لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسرائیل ظالمانہ جنگ بند کرے اور حالات کو مزید بگاڑنے سے باز رہے۔ موجودہ حالات کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا گیا مگر اسرائیل نے مطالبات نہ مانے تو اسلامی ممالک کیا کر لیں گے۔ اس بارے میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل تجویز نہیں کیا گیا جس کی مبصرین کے نزدیک بڑی وجہ اسلامی ممالک میں امریکی اثر و نفوذ کے علاوہ مغربی ملکوں کا تجارتی و اقتصادی دبائو ہے۔ بعض اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے اور بعض تسلیم کرنے کیلئے پر تول رہے ہیں درحقیقت بیشتر مسلم ممالک غیرملکی طاقتوں کے آلہ کار نہیں تو سہولت کار ضرور بن چکے ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا کے بیشتر ممالک میں فلسطینیوں کی حمایت میں روزانہ ہونے والے مظاہرےظاہر کرتے ہیں کہ حق کیلئے اٹھنے والی آوازیں ابھی کمزور نہیں پڑیں۔ مغربی میڈیا نے بھی موجودہ صورتحال کو اسرائیلی اشتعال انگیزیوں کا نتیجہ بتایا ہے۔ ایمنسی انٹرنیشنل نے نہتے شہریوں پر اسرائیلی حملوں کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ اگرچہ بیشتر دوسرے عالمی اداروں کی طرح امریکہ اور دوسری سامراجی قوتوں کی آلہ کار ہے تاہم اس کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیل سے جنگ بندی کی اپیل کر کے اپنے تیئں اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ پاکستان فلسطینیوں پر مظالم رکوانے میں اپنی سی تمام تر کوششیں کر رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کئی ملکوں کے رہنمائوں سے ٹیلیفونک رابطے کئے ہیں جس کیلئے وہ ستائش کے مستحق ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ خیر کی قوتیں بالآخر شرکی طاقتوں پر غالب آئیں گی اور ارض فلسطین کا المیہ جلد ختم ہوگا۔