تمہارے عہدے، تمہاری دولت، تمہاری حکومتیں!

May 18, 2021

اے مسلمان ملکوں کے حکمرانو!

تمہاری حکومتیں کتنے برس قائم رہیں گی؟ بیس تیس برسوں بعد تم خاک کا رزق ہو جائو گے، قبروں میں حکومتیں ساتھ نہیں جائیں گی، اعمال جائیں گے، تمہارا کردار لوگ یاد رکھیں گے، کردار عمدہ بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی، تم نیک نام بھی بن سکتے ہو اور کالک بھی کما سکتے ہو۔

مسلمان ملکوں کے عہدیدارو!

سرکاری عہدوں کی عمریں کتنی ہی طویل ہو جائیں، چند برسوں سے زیادہ تو نہیں، تم بھی آسودئہ خاک ہو جائو گے، تمہارے تن پر کفن ہوگا، کوئی بیج، کوئی کروفر نہیں، تم بہادری سے ناموری کما سکتے ہو یا پھر گونگے بن کر نوکری کر سکتے ہو۔ بطور سرکاری عہدیدار ظلم بھی کر سکتے ہو اور مظلوم کا ساتھ دے کر ظالم کا ہاتھ بھی روک سکتے ہو۔ جو کیا، اس کا حساب ہو گا، زمانہ تمہیں تمہارے کردار کے حوالوں سے یاد کرے گا۔

اے دولت مند مسلمانو!

شاید تمہیں یاد نہ ہو کہ دولت کی حیثیت بتاتے وقت حضرت علیؓ نے اپنی ہتھیلی پر ذرا سی خاک رکھی تھی پھر اس خاک کو اڑا کر فرمایا تھا ’’بس دولت کی یہی حیثیت ہے‘‘ تمہارے طرز زندگی سے دولت بول رہی ہے، تم انسانوں کو روند سکتے ہو، ان کا سہارا بھی بن سکتے ہو، دولت عیاشیوں کی نذر بھی کر سکتے ہو اور اگر چاہو تو انسانوں کے لئے مسیحا بھی ثابت ہو سکتے ہو، یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ بھی رکھ سکتے ہو۔ تمہاری دولت مظلوم کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے، مظلوم کے لئے ڈھال بھی بن سکتی ہے۔ یہ تم پر ہے کہ تم خدا کی دی ہوئی دولت کو کیسے استعمال کرتے ہو، حساب تمہارا بھی ہو گا۔ یاد رکھنا موت برحق ہے، قبر اور کفن پر شک ہے، دنیا میں کئی لوگ قبر اور کفن کے بغیر پتہ نہیں کہاں غرق ہو گئے، سمجھ نہ آئے تو فرعون کے لشکر کی کہانی پڑھ لینا یا پھر فرعون کی حنوط شدہ لاش دیکھ لینا۔ وہ حکمران بھی تھا، طاقتور اور دولت مند بھی مگر قبر اور کفن سے محروم ہے۔ دنیا اسے کس کردار کے طور پر یاد کرتی ہے۔

مسلمان دنیا کے تینوں کردارو!

یاد ہے ناکہ نمرود، شداد، فرعون اور یزید خود کو بہت طاقتور سمجھتے تھے، عتبہ، مرہب، ہلاکو کتنے مغرور تھے۔ کس طرح خدا کے شیرؓ نے خیبر میں غرور خاک میں ملا دیا تھا۔ قارون سمیت کئی دولت مند گزر ےاور رزقِ خاک بنے صرف کردار انسان کو زندہ رکھتا ہے، سمجھ نہ آئے تو کربلا میں حسینؓ کو دیکھ لینا۔

اس وقت سرزمین انبیا لہولہان ہے، دشمن گھٹیا نہیں ہونا چاہئے مگر میرے فلسطینی بہن بھائیوں کا پالا متکبر، کمینے اور گھٹیا دشمن سے پڑا ہے جو بارود کی بارش برساتا ہے، میزائل مارتا ہے، تضحیک کرتا ہے، عورتوں اور بچوں کی توہین کرتا ہے، اسے انسانیت یاد ہی نہیں، وہ عبادت گاہوں کو جلاتا ہے، شہروں کو کھنڈرات میں بدل کر خوش ہوتا ہے۔ فلسطینی لوگوں سے رہی سہی زمینیں بھی ہتھیانا چاہتا ہے، گھر مسمار ہو گئے، اسپتال بھر گئے، کئی پھول شہادت پا گئے۔ وحشت و سفاکیت کا ساتواں دن اور تم منہ میں انگلیاں دبائے مذمتوں، قراردادوں کے ساتھ عالمی برادری کی بات کر رہے ہو۔ انسانی حقوق کے علمبردار خاموش ہیں، دیسی لبرلز بھی چپ، لوگ فضل الرحمٰن، طارق جمیل اور سعد رضوی کے مذمتی بیانات تلاش کر رہے ہیں۔ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ عشق لڑتا ہے علم نہیں، علم تو نواسۂ رسولؐ کے قتل کے فتوے دے گیا اور 72عاشق شہادت پا کر امر ہو گئے۔ عشق دلیری دیتا ہے، اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ؎

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

خطے سے مظلوم بلکتا بچہ کہہ رہا ہے ’’اے ڈیڑھ ارب مسلمانو! تم کہاں ہو؟ تم نے ہمیں ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، جنہوں نے ہمیں ذبح کیا، ہمیں قتل کیا اور ہمیں مجبور کر دیا اپنے گھر بار چھوڑنے پر، ہجرت کرنے پر، ہماری مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی وعصمتیں پامال کی گئیں، ہم چیختے رہے، کیا تم لوگوں نے ہماری آواز سنی؟ ہم یتیم ہو گئے، ہمارا گناہ کیا تھا، ہم نے اپنا حق مانگا، اپنا حق طلب کیا۔ اس کی اصل بنیاد اسرائیل ہے، جہاں سے یہ سب ہو رہا ہے۔ اس سازش اور فساد کی بنیاد اسرائیل اور اس کے حواری ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتے ہیں، وہی ہمارا مددگار ہے، وہی ہمارے ساتھ ہے، وہی ہمارا حامی و ناصر ہے‘‘۔

اے غافلو! رسول پاکؐ کا فرمان ہے ’’قریب ہے کہ گمراہ قومیں تم پر اس طرح یلغار کریں گی جیسے بھوکے کھانےکے تھال پہ ٹوٹ پڑتے ہیں‘‘ کسی نے عرض کی؛کیا ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟ رسول پاکؐ فرمانے لگے ’’نہیں، تم زیادہ ہو گے لیکن سیلاب کی جھاگ کی طرح، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا‘‘ صحابیؓ نے عرض کیا ’’وہن کیا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا سے محبت اور موت سے نفرت‘‘۔

آج کے مسلمان کو دنیا سے محبت ہے، وہ شہادت سے دور بھاگتا ہے ورنہ صحابہؓ تو شہادت کی آرزو کرتے تھے۔

پاکستانیو!

قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ قرار دیا تھا، اپنے قائدکے فرمان پر قائم رہنا۔

اے ذمہ دار مسلمانو!

تمہیں یاد نہیں کہ ایک مظلوم مسلمان کی مدد عمر بن عبدالعزیزؒ نے کیسے کی تھی، تم مذمتوں، قراردادوں اور خالی دعائوں پر لگے ہوئے ہو۔ نوابزادہ نصراللہ یاد آ گئے کہ ؎

کب اشک بہانے سے کٹتی ہے شبِ ہجراں

کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے؟

تم صلاح الدین ایوبی کیا بنتے، تم تو لیلیٰ خالد بھی نہ بن سکے کیونکہ تمہیں تمہارا سبق یاد نہیں، بقول اقبال؎

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ اُمم کیا ہے

شمشیر و سناں اوّل طائوس و رباب آخر