فرض شناس سپاہی!

May 18, 2021

یہ 1970کے عشرے کے آخر کی بات ہے۔ جاپان کے کسی دور دراز علاقے میں ایک شخص کو فوج نے گرفتار کیا تھا۔ وہ شخص عمر رسیدہ، بیمار اور انتہائی بری حالت میں تھا۔ اُس پر الزام یہ تھا کہ وہ اُس علاقے سے گزرنے والے جہازوں کو اپنی پرانی بندوق سے نشانہ بناتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ کسی جہاز کو نقصان نہیں پہنچا تھا کیونکہ اس پرانی بندوق کی رینج ہی اتنی نہیں تھی۔ گرفتاری کے بعد اس شخص سے پوچھا گیا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے تو اس نے کہا کہ وہ اپنی ڈیوٹی کر رہا ہے۔ مزید پوچھا گیا کہ وہ کس کی ڈیوٹی کر رہا ہے تو اس نے بتایا کہ وہ جاپانی فوج کا سپاہی ہے اور جنگِ عظیم دوئم میں اس کی اس محاذ پر ڈیوٹی لگائی گئی تھی اور ابھی تک اسے کسی نے واپس نہیں بلایا۔ اس ’’ فرض شناس‘‘ سپاہی کو بتایا گیا کہ اس جنگ میں جاپان تباہ ہو گیا تھا۔ جنگ ختم ہو گئی ہے اور اب حالات بدل گئے ہیں۔ جاپان تو ان لوگوں کو بھی اپنا دوست بنا چکا ہے جنہوں نے ایٹم بم پھینک کر اسے تباہ و برباد کردیا تھا۔ لہٰذا اس سپاہی کو کہا گیا کہ وہ اب اپنے گھر جائے اور باقی زندگی سکون سے گزارے۔ یہ سن کر وہ سپاہی صدمے سے ہی پاگل ہو گیا۔ اس واقعہ کو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بہت کوریج ملی۔ یہ واقعہ زندگی میں کئی مواقع پر یاد آتا ہے، جب کچھ ’’فرض شناس‘‘ اپنی ہی دھن میں لگے رہتے ہیں اور انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ حالات بدل چکے ہیں اور وہ جو کام کر رہے ہیں، اس کی نہ صرف ضرورت نہیں رہی بلکہ الٹا اس سے نقصان ہو رہا ہے۔ اب یہ واقعہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے ساتھ پیش آنے والے حالیہ واقعات کے تناظر میں یاد آیا۔ عدالت نے انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت انہیں کسی نہ کسی ’’ قانونی‘‘ حیلے بہانے سے باہر جانے سے روک رہی ہے اور وہ پچیس سال پہلے والے محاذ پر کھڑی آج بھی فرض شناسی کے ساتھ وہی جنگ لڑ رہی ہے اور احتساب کی پرانی بندوق سے ’’کرپٹ‘‘ لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسے کسی نے اس محاذ سے واپس بلانے یا ہٹنے کا نہ کہا ہو لیکن اسے خبر ہونی چاہئے کہ حالات بہت بدل گئے ہیں۔ اِنہی کالموں میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تیز تر تبدیلیوں اور نئی صف بندیوں میں پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین حالات سے دوچار ہے اور اپنی تزویراتی (اسٹرٹیجک) اہمیت اور پوزیشن کو منوانے کے چیلنج سے درپیش ہے۔ حالات وہ نہیں رہے، جن میں کرپشن کے خلاف احتساب کے نام پر جنگِ عظیم دوم شروع کی گئی تھی اور تحریک انصاف کو ایک محاذ سونپا گیا تھا۔ اسی طرح کی ایک جنگِ عظیم قیامِ پاکستان کے فوراً بعد شروع کی گئی تھی لیکن عالمی حالات کے پیش نظر سیاسی قوتوں سے مفاہمت کی گئی لیکن بہت نقصان ہو چکا تھا۔ نتیجتاً سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ رونما ہوا حالانکہ اس وقت معیشت اس قدر تباہ نہیں تھی، جس قدر آج ہے۔

پہلے بھی کرپشن کے خلاف جنگ کرنے والے سپاہیوں کو اُن کے محاذوں سے واپس نہیں بلایا گیا اور وہ وہیں ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے۔ یہ اور بات ہے کہ سیاسی قوتوں سے مفاہمت کا عمل مستقل نہیں رہا۔ کبھی مفاہمت اور کبھی لڑائی کا سلسلہ جاری رہا لیکن کب کیا ہونا ہے، فیصلہ محاذ پر کھڑے لوگوں سے پوچھ کر نہیں کیا جاتا۔ یہ بات تحریک انصاف والے حقیقی مفہوم کے ساتھ نہیں سمجھ سکتے۔ موجودہ وفاقی کابینہ میں صرف شیخ رشید ہی ہیں جو اس بات کا حقیقی ادراک رکھتے ہیں، جنہیں میاں شہباز شریف کے معاملے میں الجھا دیا گیا ہے اور ان سے فرض شناس سپاہی کی طرح ڈیوٹی کی توقع کی جا رہی ہے۔ موجودہ سنگین حالات میں ملک کے سنجیدہ حلقے وسیع تر سیاسی مفاہمت کی بات کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کو معاشی بحران، سفارتی تنہائی اور خارجی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے قومی اتفاق رائے سے کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں سیاسی مفاہمت کی تجویز دے کر ایک دانش مندانہ پیغام دے دیا ہے۔ جن حالات میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تھی، وہ حالات اب نہیں رہے۔ خود تحریک انصاف کی حکومت نے اِن حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ کرپشن کے خلاف احتساب کے نام پر جنگ عظیم دوم کا اب جواز نہیں رہا۔ اس ملک میں کس نے زیادہ کرپشن کی اور کس نے ملک کو زیادہ نقصان پہنچایا ؟ اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ تاریخ کا عمل تضادات کی طاقت سے آگے بڑھ رہا ہے۔ تحریک انصاف والے سیاست اور تاریخ کے عمل کو سمجھیں یا نہ سمجھیں لیکن حالات کے منطقی نتائج کو وہ نہیں روک سکتے۔ سیاسی مفاہمت کو تحریک انصاف والے اپنی حکومت اور سیاست کے لئے جتنا بڑا خطرہ سمجھتے ہوں، یہ ان کا مسئلہ ہے۔ ملک کے معاشی، داخلی اور خارجی حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔ ان کی فرض شناسی سے کسی کو انکار نہیں۔