سوت کا ریشم

May 22, 2021

عصمت چغتائی

ننھے بھائی ہمیں کتنی بار ہی بے وقوف بناچکے تھے، مگر ہم کو آخر میں کچھ اس طرح قائل کردیا کرتے تھے کہ ان پر سے اعتبار نہ اٹھتا۔ مگر ایک واقعے نے تو ہماری بالکل ہی کمر توڑ دی۔ نہ جانے کیوں بیٹھے بٹھائے جو آفت آئی تو پوچھ بیٹھے،’’ننھے بھائی! یہ ریشم کیسے بنتا ہے؟‘‘ ’’ارے بدھو! یہ بھی نہیں معلوم، ریشم کیسے بنتا ہے! اس میں مشکل ہی کیا ہے۔ سادہ سوتی دھاگہ لو، اسے دو پلنگوں کے پائے پر ایسےتان دو جیسے پتنگ کا مانجھا تانتے ہیں بس جناب عالی! اب ایک یا دوانڈے حسب ضرورت لے لو۔ ان کی زردی الگ کر لو، اسے کانٹے سے خوب پھینٹو، نمک مرچ ڈال کر، آملیٹ بنا کر ہمیں کھلاؤ، سمجھیں؟‘‘

’’ہاں آں۔ مگر ریشم؟‘‘ ’’چہ۔ بے وقوف! اب سنو تو آگے۔ باقی بچی سفیدی، اسے لے کر اتنا پھینٹو۔ اتنا پھینٹو کہ وہ پھول کر کپا ہوجائے۔ بس جناب اب یہ سفیدی بڑی احتیاط سے پلنگ کے پایوں پر تنے ہوئے دھاگے پر لگا دو۔ جب سوکھ جائے، سنبھال کے اتار کر اس کا گولا بنا لو،اب چاہے اس ریشم سے ساڑھیاںبناؤ ، چاہے قمیصیں بناؤ۔‘‘ ’’ارے باپ رے!‘‘ ہم نے سوچا۔ ریشم بنانا اتنا آسان ہے اور ہم اب تک بدھو ہی تھے، جو اماں سے ریشمی کپڑوں کے لیے فرمائش کرتے رہے۔ ارے ہم خود اتنا ڈھیروں ریشم بنا سکتے ہیں تو ہمیں کیا غرض پڑی ہے، جو کسی کی جوتیاں چاٹتے پھریں۔

بس صاحب، اسی وقت ایک انڈا مہیا کیا گیا۔ تازہ تازہ کالی مرغی ڈربے میں دے کر اٹھی اور ہم نے جھپٹ لیا۔ فوراً نسخہ پر عمل کیا گیا، یعنی زردی کا آملیٹ بنا کر خود کھا لیا، کیونکہ ننھے بھائی نہیں تھے اس وقت۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ دھاگاکہاں سے آئے؟ ظاہر ہے کہ دھاگا صرف آپا کی سینے پرونے والی صندوقچی میں ہی مل سکتا تھا۔ سخت مرکھنی تھیں آپا۔

مگر ہم نے سوچا، نرم نرم ریشم کی لچھیوں سے وہ ضرور نرم ہوجائیں گی۔ کیا ہے، ہم بھی آج انہیں خوش ہی کیوں نہ کر دیں۔ بہت نالاں رہتی ہیں ہم سے، بدقسمتی سے وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھ بیٹھی ہیں۔ آج ہم انہیں شرمندہ کر کے ہی چھوڑیں گے۔ وہ بھی کیا یاد کریں گی کہ کس قدر فرسٹ کلاس بہن اللہ پاک نےانہیں بخشی ہے۔ جس نے سوت کا ریشم بنا دیا۔ آپا جان سو رہی تھیں اور ہم دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ ریشم کی ملائی لچھیاں دیکھ کر آپا بھی ریشم کا لچھا ہوجائیں گی اور پھر ہمیں کتنا پیار کریں گی۔ سخت چپ چپا اور بدبودار تھا ریشم بنانے کا یہ مسالہ۔

ناتجربہ کاری کی وجہ سے آدھا دھاگا تو الجھ کر بیکار ہوگیا۔ مگر ہم نے بھی آج تہیہ کر لیا تھا کہ اپنی قابلیت کا سکہ جما کر چین لیں گے۔لہٰذا آپا کی صندوقچی میں سے ہم نے ساری کی ساری رنگ برنگی سوتی اور ریشمی ریلیں لے کر دو پلنگوں کے درمیان تان دیں کہ ریشم تو اور چمکدار ہوجائے گا۔ سوت ریشم ہوجائے گا۔ اب ہم نے انڈے کی پھینٹی ہوئی سفیدی سے تانے ہوئے دھاگے پر خوب گسے دینے شروع کیے۔

اتنے میں آپا جان آنکھیں ملتی اور جمائیاں لیتی ہوئی ہمارے سر پر آن دھمکیں۔ تھوڑی دیر تو وہ بھونچکی سی کھڑی یہ سارا تماشا دیکھتی رہیں۔پھر بولیں: ’’یہ۔۔۔ یہ کیا۔۔۔ کر رہی ہے۔ ؟‘‘ انہوں نے بہ وقت آواز حلق سے نکالی۔ ’’ریشم بنا رہے ہیں!‘‘ ہم نے نہایت غرور سے کہا اور پھر نسخے کی تفصیل بتائی۔ اور پھر گھر میں وہی قیامت صغریٰ آگئی جو عموماً ہماری چھوٹی موٹی حرکتوں پر آنے کی عادی ہوچکی تھی۔ ناشکری آپا نے ہماری سخت پٹائی کی۔ گھر میں سب ہی بزرگوں نے دست شفقت پھیرا: ’’ریشم بنانے چلی تھیں!‘‘ ’’اپنے کفن کے لئے ریشم بنا رہی تھی چڑیل۔‘‘

ان لوگوں نے زندگی دوبھر کردی، کیوں کہ واقعی ریشم بننے کے بجائےدھاگا، برتن مانجھنے کا جونا بن گیا۔ ہم نے جب ننھے بھائی سے شکایت کی تو بولے: ’’کچھ کسر رہ گئی ہوگی۔۔۔ انڈا باسی ہوگا۔‘‘ ’’نہیں، تازہ تھا، اسی وقت کالی مرغی دے کر گئی تھی۔‘‘ ’’کالی مرغی کا انڈا؟ پگلی کہیں کی۔ کالی مرغی کے انڈے سے کہیں ریشم بنتا ہے؟‘‘ ’’تو پھر۔۔۔؟‘‘ ہم نے احمقوں کی طرح پوچھا۔ ’’سفید مرغی کا انڈا ہونا چاہئے۔‘‘ ’’اچھا؟‘‘ ’’اور کیا، آملیٹ تم خود نگل گئیں۔ ہمیں کھلانا چاہئے تھا۔‘‘ ’’تب ریشم بن جاتا؟‘‘

’’اور کیا!‘‘ بھیا نے کہا اور ہم سوچنے لگے۔ سفید مرغی کم بخت کڑک ہے، انڈوں پر بیٹھی ہے۔ نہ جانے کب انڈے دینا شروع کرے گی۔ خیر دیکھا جائے گا۔ ایک دن آپا کو ہمیں مارنے پر پچھتانا پڑے گا۔ جب ہم سارا گھر ریشم کی نرم نرم لچھیوں سے بھر دیں گے تو شرم سے آپا کا سر جھک جائے گا، اور وہ کہیں گی۔ ’’پیاری بہن مجھے معاف کردے تو تو سچ مچ ہیرا ہے۔‘‘

تو بچو، اگر تم بھی ریشم بنانا چاہتے ہو تو نسخہ یاد رکھو۔ انڈا سفید مرغی کا ہو۔ اگر فی الحال وہ کڑک ہے تو انتظار کرو اور زردی کا آملیٹ ننھے بھائی کو کھلانا۔ خود ہرگز ہرگز نہ کھانا، ورنہ منتر الٹ پڑجائے گا، اور حالات نہایت بھونڈی صورت اختیار کرلیں گے۔ پھر ہمیں دوش نہ دینا۔