بابائے قوم کی شریک حیات، مریم جناح

May 19, 2021

اوپر نیچے دو کڑوے کسیلے کالم لکھنے کے بعد سوچا ذرا وقفہ لوں کہ میز پر کتابوں کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں سے ایک پر موجود ’’آزادی کی متوالی‘‘ کے مسودہ پر نظر پڑی۔ یہ انتہائی خوب صورت کتاب ڈاکٹر سعد خان نے تحقیق، محنت، محبت اور عقیدت کے ساتھ بابائے قوم کی شریک حیات محترمہ مریم جناح کے بارے میں لکھی ہے جو شادی سے پہلے رتی پٹیٹ کہلاتی تھیں، اسلام قبول کرنے کے بعد مریم جناح کے نام سے جانی گئیں۔ سروجنی نائیڈو انہیں ’’بمبئی کا پھول‘‘ کہا کرتی تھیں اور کچھ لوگ انہیں ’’بمبئی کا موتی‘‘ کہتے تھے۔ گھر میں انہیں پیار سے ’’رتی‘‘ بلایا جاتا تھا۔

آپ سرڈنشا پٹیٹ اور لیڈی دینا بائی کی پہلی اور اکلوتی بیٹی تھیں۔ ان زمانوں کے کروڑ پتی ڈنشا اتنے دولت مند تھے کہ بحیرہ روم کے ساحل پر فرانس کے شہرہ ٔ آفاق FRENCH RIVIERA تک میں جائیداد کے مالک تھے۔ محترمہ مریم جناح کے بارے میں پاکستانی بہت کم جانتے ہیں لیکن بابائے قوم سے ان کی شادی بارے بنیادی معلومات بہرحال نسبتاً عام ہیں۔ اس لئے میں نے کالم کے لئے صرف ان چند باتوں کا انتخا ب کیا جو ’’نایاب‘‘ ہیں مثلاً یہ کہ ...

شادی کے بعد آپ اپنے شوہر کو ’’جے‘‘ کہہ کرپکارا کرتی تھیں۔

آپ کو اپنے والدین کی طرف سے شاہانہ طرز زندگی اور عادات ورثہ میں ملیں جو شادی کے بعد بھی جاری رہیں کیونکہ بابائے قوم ان سے بےپناہ محبت کرتے تھے۔ تاریخ نے اگر کبھی مرد آہن محمد علی جناح کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تو وہ محترمہ مریم کی وفات کا وقت تھا۔

محترمہ مریم کے مشاغل میں کتب بینی، موسیقی، رقص، قیمتی ملبوسات شامل تھے اور پالتو جانوروں سے بھی بہت پیار کرتیں۔ یہاں تک کے سفر کے دوران بھی ان کے PETS ان کے ساتھ ہوتے۔

وہ بمبئی ایلیٹ کی سب سے خوش لباس خاتون تھیں اور اکثر ایرین نامی ملازمہ ان کے ساتھ ہوتیں۔

مریم جناح صاحبہ کو گھڑسواری کا شوق بھیتھا۔ گھر میں بولی جانے والی زبان انگریزی تھی جبکہ فرانسیسی زبان سے بھی آشنائی تھی۔

مطالعہ کے شوق کی تکمیل کے لئے وہ کتابیں خریدنے بمبئی کی مشہور دکان ’’تھیکر اینڈ کو لمیٹڈ‘‘ سے پسندیدہ کتابوں کی شاپنگ کرتیں۔

مریم جناح کا خواب تھا کہ ایک دن اپنی شاعری کی کتاب منظر عام پر لائیں گی لیکن زندگی کا سفر ہی بہت جلد ختم ہوگیا۔

ان کا ایک فیورٹ گیت تھا "SO DEEP IS THE NIGHT"۔

رتی صاحبہ کا قبول اسلام سنی مکتبہ فکر کے تحت ہوا۔ رتی صاحبہ بروز جمعرات 18اپریل 1918قائداعظم کے دوست عمر سبحانی کے ساتھ قبول اسلام کے لئے جامع مسجد گئیں اور مشہور عالم مولانا نذیر احمد کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ یہ وہی مسجد تھی جہاں 18سال بعد گاندھی جی کے سب سے بڑے بیٹے ہری لال گاندھی نے اسلام قبول کیا تھا۔ شوہر کی خواہش پر رتی صاحبہ کا اسلامی نام مریم رکھا گیا حالانکہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ ’’رتن‘‘ ایک مسلم نسوانی نام کے طور پر گجراتی مسلمانوں میں عام اور مقبول تھا۔

قائدا عظم کے تمام بھانجے بھانجیاں آپ کو مریم مامی کہہ کر پکارتے تھے۔

شادی کے وقت مریم 18برس کی تھیں جبکہ جناح صاحب کی عمر اکتالیس پلس تھی۔

نکاح نامہ فارسی میں لکھا گیا تھا۔ قائد کی ہمشیرہ کے داماد رجب علی بھائی ابراہیم باٹلی والا نے بمبئی کی پالا گلی مسجد میں اندراج کروایا جو شادی رجسٹر میں درج ہوا۔حق مہر کی رقم 1001 روپے مقرر کی گئی جبکہ جناح صاحب نے اس میں خود ہی اضافہ کرتے ہوئے 125000 بطور تحفہ ادا کئے۔

نینی تال میں ہنی مون پر جاتے ہوئے ان کا پہلا قیام لکھنؤ میں راجہ علی محمد خان المعروف راجہ صاحب محمود آباد کی رہائش گاہ تھی۔اس زمانہ میں بمبئی سے لکھنؤ تک کا سفر 30 گھنٹوں پر محیط تھا۔

کانجی دوارکا داس لکھتے ہیں ’’محمد علی جناح جو دیگر کئی معاملات میں بہت شاہ خرچ نہیں تھے، ان کے لئے ایک نواب زادی سے شادی ہونے کے بعد اپنی شریک حیات کی تمام خواہشات پوری کرنے کے لئے کمال درجہ کی فیاضی معمول کی بات بن گئی تھی‘‘۔

وکالت کے علاوہ کئی کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری قائد کی دولت کا اضافی ذریعہ تھی۔ انہیں ان کمپنیوں سے ماہانہ 40000 روپے تک کا منافع حاصل ہوتا تھا۔

اک پُرمسرت لیکن مختصر زندگی کے بعد زندگی کی فقط 29 بہاریں دیکھ کر ’’بمبئی کا پھول‘‘مرجھا گیا۔ آج وہ بمبئی کے علاقہ ڈونگری میں واقع جناح خاندان کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ جناح خاندان کے کئی افرد بشمول قائد کی چار میں سے دو ہمشیرگان بھی وہیں مدفون ہیں۔

قریب ترین ہونے کے ناتے قائداعظم نے سب سے پہلے اپنی محبوب شریک حیات کی قبر پر مٹی ڈالی اور ایک بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔

قارئین! کتاب میں بہت کچھ، بہت ہی نیا ہے لیکن کالم کی اپنی مجبوریاں اور میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ مسودہ کتابی روپ دھار چکا یا ابھی انتظار کرنا ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)