ہم نہیں مانتے

May 19, 2021

کاغذ کا بھلا کیا وزن ہوتاہے لیکن بینکر کا ہاتھ جیسے ہی نقلی نوٹ کو چھوتا ہے تو وہ اس کے وزن سے ہی پہچان جاتاہے کہ یہ جعلی ہے۔ فاسلز اناٹومی کے ماہرین سے کلا م کرتے ہیں۔ چمپینزی کی نسبت انسان کی کھوپڑی گول ہے۔سر کی نسبت چہرہ سکڑ گیا ہے۔ قرآن میں آدمؑ کو مٹی سے بنانے کا ذکر ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ لکھا ہے : ہم نے ہر زندہ شے کو پانی سے پیدا کیا۔ الانبیا 30۔ایک بزرگ فرمانے لگے : قرآن میں لکھا ہے : بے شک اللہ کے نزدیک عیسی ؑ کی مثال ہوبہو آدمؑ جیسی ہے، جسے مٹی سے بنا کے کہہ دیا ’’ہوجا ‘‘تو وہ ہو گیا ؛لہٰذا کوئی ارتقا نہیں ہوا۔ درخواست کی : یہ کہاں لکھا ہے کہ ایسا ایک لمحے میں ہو گیا۔ باقی آیات پر بھی غور کریں کہ ہر زندہ شے کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔ الانبیا 30۔ نیززمانے میں انسان پر ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا جب کہ وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا۔دہر 1۔ پانی او رمٹی سے کیسے زندگی پیدا ہوئی؟ مٹی میں ہائیڈرو کاربنز ہیں، جوزندگی کا بنیادی جزو ہیں۔ پانی میں یہ کیمیکلز آپس میں کنکشن بناتے ہیں۔

اللہ یہ کیوں کہتاہے کہ ایک طویل عرصے تک انسان کوئی قابلِ ذکر شے ہی نہ تھا۔ آدمؑ نے تو فرشتوں کو علم کے میدان میں ہرا دیا تھا۔ پھر کون تھے وہ ناقابلِ ذکر انسان؟ وہ انسان سے ملتی جلتی مگر چھوٹے دماغ کی اسپیشیز تھیں۔ آسٹرالوپی تھیکس، ہومو ہیبلس تھا، ہومو اریکٹس تھا، نی اینڈرتھل، جس کا ڈی این اے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ نے شائع کیا ہے۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں کو دعوتِ عام ہے کہ آئو،کرو اعتراض۔شریعت تو ہومو سیپین یعنی ہم انسانوں پر ہی نازل ہو ئی۔ ہمارا ہی حساب ہونا ہے۔

1974 میں ایتھوپیا سے 32لاکھ سال پرانا ایک لڑکی کا فاسل ملا۔ہم انسانوں کی عمر صرف تین لاکھ سال ہے۔ اس کا نام لوسی رکھاگیا۔ چار سال لیبارٹری میں ریسرچ کے بعد اسے عالمی سائنسدانوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس سپیشی کا نام رکھا گیاآسٹرالو پی تھیکس افرینسز۔ پھرچالیس سال تک سائنسدان لوسی پر کام کرتے رہے۔

اس سے پہلے1924 میں Taung Child نامی ایک بچے کا ڈھانچہ ملا تھا، جو 28لاکھ سال پرانا تھا۔ وہ Baboonکے دماغ سے تین گنا بڑا تھا اورچمپینزی سے کچھ بڑا۔ اس کے دانت ایپس کی بجائے انسانوں جیسے تھے۔ جس جگہ سے ریڑھ کی ہڈی دماغ سے ملتی ہے، وہ انسانوں جیسی تھی۔ اندازہ ہوا کہ وہ دو ٹانگوں پہ چلتا تھا۔پچیس سال تک اس پر تحقیق ہوتی رہی۔

لوسی سامنے آئی تو تہلکہ مچ گیا۔ اس کی کھوپڑی، جبڑے اور دانتوں کی ساخت انسانوں جیسی تھی لیکن دماغ چمپینزی کے برابراوربازو بھی۔ اس کے کولہے کی ہڈی چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ وہ سیدھی کھڑی ہو کر چلتی تھی، ہماری طرح۔ بعد میں اور فاسلز سامنے آتے گئے۔ انکشاف یہ ہوا کہ دو ٹانگوں پر سیدھا چلنے کی صلاحیت حاصل کرنے کے دس لاکھ سال بعد Hominidsکادماغ بڑا ہونا شروع ہوا۔ بیس لاکھ سال پہلے پھرہومو اریکٹس سامنے آیا، جس کی شکل انسانوں جیسی تھی ورنہ لوسی وغیرہ تو ایپ لگتے تھے، بن مانس جیسے۔ ہومو اریکٹس کے پاس پتھر کے سادہ اوزار بھی ملے۔

اس دور میں جب ریمنڈ ڈارٹ نے یہ بات کی کہ انسان یورپ اور ایشیا کی بجائے افریقہ میں پیدا ہوا تھا تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ لوسی کی عقل داڑھ نکل چکی تھیں۔ اس کے جسم کی ہڈیاں آپس میں مل(fuse)چکی تھیں۔ وہ بچی نہیں تھی۔ وہ ایپس اور انسانوں کے درمیان کی مخلوق تھی۔20ا یسی مخلوقات دریافت ہو چکی ہیں، جو مکمل یا جزوی طور پر دو ٹانگوں پہ چلتی تھیں۔ انہیں Homininکہا جاتا ہے۔ 2008میں جنوبی افریقہ میں 20لاکھ سالہ عمر کی سڈیبا دریافت ہو ئی تھی۔ ایسے میں ایک ایک ہڈی پہ بحث کی جاتی ہے۔

سب مخلوقات ایک ساتھ ہرگز پیدا نہیں ہوئیں۔ آج سے 48کروڑ سال پہلے سمندری حیات اور مچھلی پیدا ہوئی۔ پھرریپٹائلز نمودار ہوئے 31کروڑ سال پہلے۔ پھر میملز آئے 20کروڑ سال پہلے۔ پھر پرائیمیٹس آئے 5.5کروڑ سال پہلے۔اس کے بعد گریٹ ایپس آئے اور آخر میں صرف تین لاکھ سال پہلے ہومو سیپنز یعنی ہم انسان آئے۔ عقل والوں کے لیے ان چیزوں میں نشانیاں ہیں۔

چلیے فرض کیجیے کہ آپ اپنی سمجھ کے مطابق کہہ دیتے ہیں کہ مذہب کے مطابق کوئی ارتقا نہیں ہوا؛حالانکہ مذہب یہ ہرگز نہیں کہتا۔ وہ تو کہتا ہے کہ طویل عرصے تک انسان کو ئی قابلِ ذکر شے ہی نہ تھا۔ اس کے بعد اگر ایک غیر مسلم ارتقا پر سوال کرتاہے تو آپ اسے کیا جواب دیں گے۔اسے جواب دینے کے لیے توآپ کو ہڈحرامی چھوڑ کر فاسلز کو پڑھنا ہی پڑے گا لیکن پچھلے آٹھ سال میں، میں پورا زور لگا کر بھی انہیں اس پہ مائل نہ کر سکا۔ بار بار کہا:فاسلز کی سائنس پڑھو۔ ان کا جواب آیا:پڑھ لیں گے کبھی۔ کس آسانی سے آپ نے فاسلز کے علم کو دھتکار دیابلکہ آپ نے کیا دھتکاراتمام علوم نے مسلمانوں کو دھتکار دیا۔ ان کی طرف سے پڑھے بغیر ہی صاف انکار ہے۔

فاسلز تو کیا ہومو نی اینڈرتھلز کا ڈی این اے بھی پڑھ کر شائع ہو چکا ہے۔ ایک ایک جینز کا نام۔ اگر کوئی مائی کا لال ہو پڑھنے والا۔ وہ تو ابھی 33ہزار سال پہلے تک زندہ تھے، ہمارے شانہ بشانہ۔ میکس پلانک سوسائٹی جرمن ادارہ ہے، جس میں پوری دنیا سے دس ہزار سائنسدان کام کرتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے کہ زمین میں چلو پھرو اور عبرت حاصل کرو تباہ شدہ اقوام کو دیکھ کر!یہ کتنی فخر کی بات ہے کہ دوٹانگوں پر چلنے والی 20اسپیشیز میں سے ہمارا انتخاب ہوا؛ حالانکہ نی اینڈرتھل کا دماغ ہم سے بڑا تھا۔