جمہوریت کی راہ روبیگم ولی خان

May 19, 2021

پاکستان میں اگرچہ سیاست موجود ہے لیکن موقع پرستی نے اسے بے روح کررکھاہے،جہاں اب مزاحمتی سیاست برائے نام ہے تو سیاست سے برداشت ، بردباری اور شائستگی بھی گویا رخصت ہوچکی ہے،تاہم اس ملک کے دروبام نے سیاست ومزاحمت کا زریں دور بھی دیکھا ہے،یہ دور صاحب کردار شخصیات کی یاد دلاتاہے ،گزشتہ دنوں ایک ایسی ہی باکمال سیاسی شخصیت بیگم نسیم ولی خان بھی ہم سے رخصت ہوگئیں،جمہوریت کی خاطران کی قربانیاں گاہے گاہے اہل ِ سیاست کو یہ یاد دلاتی رہیںگی کہ سیاست محض جاہ وجلال اور اقتدار حاصل کرنے کیلئے سیاہ کو سفیدکہنے کا نام نہیں ،بلکہ عوامی حقو ق کی خاطر جبر والم سے ہم آغوش ہونے کا استعارہ ہے۔ پھر بیگم نسیم کی سیاست کا امتیاز تو یہ بھی ہےکہ اُن کا تعلق قربانیوں کے حوالے سے برصغیرپاک وہند کے سب سے بڑے خانوادے سے تھا۔ وہ بے داغ سیاستدان خان عبدالولی خان کی اہلیہ اور رئیس الاحرار باچاخان کی بہوتھیں۔1949میںولی خان جیل میں تھے کہ اُن کی پہلی اہلیہ گوہر تاج کاانتقال ہوا،اُن کے ہاں جڑواں بچے پیداہوئے تھے ایک کا انتقال پیدائش کے وقت والدہ کے ساتھ ہوا جبکہ دوسرے کو لوگ آج اسفندیار ولی خان کے نام سے جانتے ہیں۔یہ خاندان چونکہ آزادی سے قبل انگریز سامراج اور آزادی کے بعد جمہوریت کش حکمرانوں کیخلاف میدان عمل میں تھا،اسی لئے اکثر جیل وعقوبت خانوں سے واسطہ پڑتا،رہاہوتے تو سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے،یوں گھراوربچوں کی دیکھ بھال ناممکن تھی۔اس لئے گھراورکمسن بچوں کی دیکھ بھال کیلئے ولی خان نے 1954ءمیں بیگم نسیم سے دوسری شادی کی،شادی کا یہ واقعہ بھی کچھ کم تاریخی نہیں،باچاخان ان دنوں اٹک قلعے میں نظربند تھے اور اُن کے اپنے صوبے میں جانے پر پابندی تھی،چنانچہ ولی خان کی بارات اٹک قلعے لے جائی گئی جہاں باچاخان نے خود ان کا نکاح پڑھوایااور چارسدہ رخصت کیا۔ بیگم ولی کےوالد امیرمحمدخان لالہ جنگ آزادی کے مایہ ناز مجاہد تھے یوں بیگم ولی کے گھر کا ماحول بھی سیاسی تھااور وہ ایک سیاسی خاندان ہی میں آئی تھیں،لیکن اُنہیں 1975میںاُس وقت عملی سیاست میں آنا پڑا جب 8فروری 1975 کوبھٹوصاحب کی حکومت میں ولی خان سمیت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ )کی پوری قیادت کو گرفتارکرلیا گیا، دیگررہنما زیرزمین یاقبائلی علاقوں میں چلے گئے،اور جلاوطن ہوئے ،نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگادی گئی،جبکہ اس جماعت سے وابستہ افرادکی خواتین اوربچوں تک کو جب ہراساں کیاجانےلگا،تو بیگم نسیم ولی خان نے میدان کارزار میں اُترنے کا فیصلہ کیا،بزرگ خدائی خدمتگاروں تک نے اس فیصلے کی مخالفت کی لیکن خاندان میںکوئی ایسا مردنہیں بچاتھاجوجمہوری کاررواں کو بچاپاتا،لہٰذابی بی اپنے فیصلے پر مانند جبل قائم رہیں،جس کے بعد سردار شیرباز مزاری کی قیادت میں ایک نئی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سیاسی اُفق پر ایسی نمودار ہوئی کہ وہ جمہوری تحریک کی روح رواںبن گئی۔بیگم ولی خان نےاپنی گوناگوں خوبیوںکی بدولت ہر مکتب فکرمیں ملک گیر شہرت پائی ۔اُنہوں نےجہاں باچاخان کے اُس سیاسی کاررواں کو پھرسے یکجاکیا جوجیل سے باہر عتاب کی وجہ سےمنتشرہوچکاتھا، تو دوسری طرف اپنی جماعت کے سینے میں ہرعلاقے وزبان کےلوگوں کولابسایا،وہ جمہوری جدوجہداور قومی یکجہتی کی علامت بنیں اور اس راہ میں قیدونظربندی کاٹی،انہوں نے شائستہ ومہذب مخصوص اندازوبیاں سے اہل ِپاکستان کو گرویدہ بنایا ،یہی وجہ ہےکہ اگرایک طرف پختون اُنہیں عقیدت سے موربی بی (پیاری ماں) کہہ کر پکارتے تھے تو بقول نامور صحافی ابرار بختیار جمہوریت پسنداُنہیں مادرجمہوریت کہتے تھے۔اپنی ہردلعزیزی کی وجہ سے 1977کے انتخابات میں مردان اور پشاور کے دو حلقوں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں،یوں وہ پاکستان کی پہلی خاتون تھیں جو براہ راست عوامی ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوئیں۔ دسمبر 1977میں جب عدالتی فیصلے کے تحت ولی خان رہا ہوگئےتوپارٹی کے بعض قدامت پسند قوم پرستوں نے یہ تجویز پیش کی کہ چونکہ اب تمام راہ نما رہا ہوچکےہیں ،اس لئے بیگم نسیم کو عملی سیاست سے سبکدوش ہوناچاہئے، جناب ولی خان نے یہ کہہ کر تجویز قبول نہیںکی کہ ایک تو ابتلاکے دور میں اُنہوں نےپارٹی کو سہارادیا،پھر اگر میں اپنی اہلیہ کو قدامت پسندروایات کے باوصف گھرپر بٹھادونگاتو اپنے اس موقف کا کس جواز کے تحت دفاع کر پائوں گاکہ خواتین کو سیاست میں آنا چاہئےاور یہ کہ اس طرح خواتین کےحقوق کاوہ نعرہ جو ہم ترقی پسندسیاست کے تناظرمیں لگاتے ہیں کیوںکر سچا قرار پائےگا؟ عوام نے بھی اس فیصلے کی بار بار تائید کرتے ہوئے عام انتخابات میں بیگم ولی خان کو چار مرتبہ رکن اسمبلی بنایا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ بیگم ولی خان اگرچہ جسمانی طورپر رخصت ہوچکی ہیں لیکن اپنی قربانیوں کی بدولت تاریخ میں امر ہو گئیں۔