’’اِتحاد و اتفاق‘‘ اسلامی مُعاشرے میں امن و سلامتی کا سرچشمہ

May 28, 2021

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اے ایمان والو ! اﷲ سے ڈرو ، جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر اسلام ہی کی حالت میں موت آنی چاہئے ، سب مل کر اﷲ کی رسّی کو تھام لو ، پھوٹ نہ پیدا کرو اور اپنے اﷲ کے اس انعام کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے ، پھر اﷲ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اﷲ کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے ، نیز تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے ، تو اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اس سے نکالا ، اﷲ تعالیٰ اسی طرح تم لوگوں کو احکام بتاتا رہتا ہے ، تاکہ تم ہدایت پر قائم رہو ۔( سورۂ آلِ عمران ۱۰۲-۱۰۳)

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان میل ملاپ کرادیا کرو ۔ ( سورۃ الحجرات : ۱۰ )یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے ، افسوس کہ اس کی اہمیت اور معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا نہ ادراک ہے اور نہ احساس ۔حضرت ابودرداءؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزہ ، صدقہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل چیز بتاؤں ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ آپ ﷺنے فرمایا : وہ ہے باہمی خلش کو دور کرنا اور صلح کرانا ، اصلاحِ ذات البین۔ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ آپس میں تعلقات کا بگاڑ ،مونڈ دینے والی چیز ہے۔ ( الادب المفرد ، حدیث : ۳۹۱) رسول اﷲﷺ کے نزدیک مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے اور ان کے باہمی اختلافات کو رفع کرنے کا کس قدر پاس و لحاظ تھا ۔

اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ باوجودیہ کہ نماز میں جماعت کا آپ ﷺ کو حد درجہ اہتمام تھا ، عین میدانِ جنگ میں بھی غیر معمولی حالات کے بغیر آپ ﷺکی جماعت نہیں چھوٹتی تھی اور مرضِ وفات میںبھی آپ ﷺنے جماعت میں شرکت کا اہتمام فرمایا ، جب خود چلنے کی طاقت باقی نہیں رہی ، تب بھی رفقاء کی مدد سے شریک جماعت ہونے کی کوشش فرمائی ، لیکن اس کے باوجود قبیلۂ بنی عمرو بن عوف میں ایک جھگڑا رفع کرنے اور مصالحت کرانے کے لئے آپ ﷺ اپنے رفقاء کے ساتھ بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور اس فریضۂ مصالحت میں اتنی تاخیر ہوگئی کہ حضرت بلال ؓ نےحضرت ابوبکر ؓ کو امامت کے لئے آگے بڑھا دیا ، نماز شروع ہونے کے بعد رسول اﷲ ﷺ تشریف لائے۔ ( صحیح بخاری : ۲۶۹) ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺکی نگاہ میں مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کی کیا اہمیت تھی ۔

صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمۂ مجتہدین کے دور کی وہ تاریخ بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ تعبیر کتاب و سنت کے ما تحت جو ان میں اختلاف رائے پیش آیا، اس پوری تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ اس نے جنگ و جدال کی صورت اختیار کی ہو، باہمی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا اور تمام برادرانہ تعلقات قائم رہنا اس پوری تاریخ کا اعلیٰ شاہ کار ہے ۔اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اختلاف قرآن وسنت کی بنیاد پراخلاص و للّٰہیت کے ساتھ ہو اور اختلاف کرنے والوں میں وہ اہلیت بھی موجود ہو جو اس کے لئے ضروری ہے ، تو یہ اختلاف ممنوع نہیں،بلکہ امت کے لئے رحمت ہے ۔

اختلاف ایسے مسائل میں ہو، جن میں قرآن و سنت نے کوئی دو ٹوک فیصلہ نہ کیا ہو، ایسے مسائل جن میں اجتہاد کی گنجائش ہوتی ہے ، یعنی ایک سے زیادہ آراء کا احتمال ہوتا ہے، ان میں جو فریق بھی جو رائے دلائل کی بنیاد پر قائم کر لے ،وہ ناجائز اور ناپسندیدہ نہیں ہوتی۔دلائل کی روشنی میں اپنی جو بات بھی راجح ہو ،اسے صواب، محتمل خطا اور فریق مخالف کی رائے کو خطا، محتمل صواب سمجھاجائے ،اس سے اختلاف اپنے دائرے میں رہے گا اور منافرت کی نوبت نہیںآئے گی، ورنہ اپنی رائے پر اصرار تفرقہ اور انتشارکا سبب ہوسکتا ہے ۔

اختلاف رائے کے حوالے سے یہ اصول بھی پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ اختلاف کی نوعیت خواہ کیسی بھی ہو، اس میں سنجیدگی، متانت اور وقار کے دامن سے وابستہ رہنا ضروری ہے۔ لڑائی، جھگڑا، گالم گلوج اور طعنہ زنی سے بچنا لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائو اور لوگوں سے بہتر طریقے سے گفتگو کرو‘‘۔ (سورۂ نحل: ۱۲۵)

اس لیے کہ مقصد حق کی تفہیم اور تبلیغ ہے، جس کے لیے نرم خوئی اور دل سوزی، شفقت اور ہمدردی، خوبصورت انداز بیان اور مشفقانہ لب ولہجہ مطلوب اور مفید ہے۔ سختی و تلخی، بداخلاقی اس راہ میں نہایت مضر اور بے نتیجہ ہے۔ اللہ عزوجل نے فرعون جیسے سرکش اور گمراہ کے پاس حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارون ؑ جیسے پیغمبر اور مصلح کو بھیجتے ہوئے حکم دیا: ’’تم دونوں اس سے نرم لہجے میں گفتگو کرو، ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کرلے‘‘۔(سورہ ٔطٰہٰ:۴۴)

ہم میں سے کوئی پیغمبر سے بڑھ کر ہمدرد اور مصلح نہیں ہوسکتا اور نہ اسے معلوم ہے کہ اس کا مخاطب بہرحال باطل پر قائم رہے گا تو ایسی حالت میں سخت اور دل آزار گفتگو کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے۔

اجتہادی مسائل اور فقہی و علمی اختلاف میں یہ طریقہ ہونا چاہیے کہ اپنے مسلک کو چھوڑا نہ جائے اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑا نہ جائے، نہ چھیڑنے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ علمی تنقید نہ کی جائے، بلکہ علمی تنقید کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے ، البتہ اسے لڑائی ، جھگڑا اور دلوں میں دوری کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ کشادہ دلی کے ساتھ اختلاف اور تنقید کو برداشت کرناچاہیے، نیز کسی کو اپنے خیال اور رائے کا پابند نہیں بنانا چاہیے۔ یہ ایک بے جا اور غیرفطری خواہش ہے کہ تمام لوگ کسی ایک رائے پر جمع ہوجائیں، اپنے مسلک و مذہب کو دلائل کےساتھ بیان کرنے میں اور اسے راجح قرار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کی طر ف دعوت دینا غلط ہے۔ اس لیے کہ دعوت دین کی طرف ہونی چاہیے ،نہ کہ مسلک ومذہب کی طرف۔

حضرت یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ اہل فتویٰ کے درمیان ہمیشہ بعض چیزوں کے حلال و حرام ہونے میں اختلاف رہا ہے، لیکن حلال یا حرام قرار دینے والوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے متعلق یہ خیال نہیں کرتا کہ جسے وہ حلال یا حرام سمجھ رہا ہے ،دوسرا اس کے برخلاف سمجھنے کی وجہ سے ہلاک ہوگیا۔(جامع بیان العلم ۲؍۸۸)

امام شافعی ؒفرماتے ہیں کہ جو آدمی کسی علمی وفقہی مسئلے میں مجھ سے اختلاف رکھتا ہے ،میں اس سے یہ نہیں کہتا کہ وہ اللہ سے توبہ کرے ،کیونکہ توبہ گناہوں سے ہوتی ہے اور ایسا آدمی گنہگار نہیں ہوتا ، بلکہ ایک یا دو ثواب کا حقدار ہوتا ہے‘‘۔(اختلاف رائے آداب واحکام ، ڈاکٹر سلمان فہدعودہ؍۱۰۳)

دین اسلام اپنے ماننے والوں کو نہ صرف اَمن و آشتی، تحمل و برداشت کی تعلیم دیتا ہے، بلکہ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سکھاتا ہے۔قرآن مجید اور تعلیمات ِ نبویؐ سے یہ امر ثابت ہے کہ ملت کا اتحاد و اتفاق اس کے استحکام کی ضمانت ہے۔خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اپنی حیات ِ طیبہ میں فرمان الٰہی ’’انّمَاالمُؤمِنُونَ اخُوَۃُ‘‘ کی روشنی میں امت کو متحد رکھا اور ہمیشہ مسلمانوں کو باہم متحد و متفق رہنے کی عظیم تعلیمات عطا کیں، جن پرعمل کرکے یہ امت فرقہ واریت سے نجات پاسکتی ہے۔

ارشادِ نبوی ہے:۔ ’’مومن ،مومن کےلیے دیوار کی مانند ہے،جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوطی دیتا ہے‘‘۔’’مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘۔قرآن و سنت کی یہ تعلیمات اختلافِ رائے اور فقہی و مسلکی اختلافات کے حوالے سے رہنمائی کا سرچشمہ ہیں۔ جو یہ اصول عطا کرتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں امن و سلامتی، تحمل و برداشت اور مذہبی رواداری بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم ایک مثالی اور پُرامن اسلامی معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں۔