کلب رجسٹریشن کا تماشا کرکٹ کی تباہی پر ختم ہوگا

June 01, 2021

پی سی بی ملک میں کرکٹ کے اصل وارثوں کو لاروارث کرکے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کھیل کو چلانے کی تیاری میں ہے ، اسی لئے تین سال میں اب تک صرف تباہی اور لاحاصل منصوبہ بندی کے سوا کچھ سامنے نہیں آیا ، وزیراعظم کے ویژن کےمطابق آسٹریلین طرز پر چھہ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن تو تشکیل دی مگر گراس روٹ لیول ، کلب کرکٹ ، ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن ، ڈیپارٹمنٹل اور ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کی قربانی دے کر ملکی کرکٹ کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا، غیر ملکینظام کر کٹ ہر گز پاکستان میں کامیاب نہیں ہوسکتا،ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں ہر نئی حکومت کے ساتھ کر کٹ کا نیا آئین سامنے آئے گا،پی سی بی نے کلب رجسٹریشن کے نام پر جو تماشہ لگایا ہوا ہے یہ ملکی کرکٹ کی تباہی پر ختم ہوگا اس نظام کی پیچیدگیاں اسے ناکام بنا دیں گی۔

پی سی بی کے طرز عمل سے اگلے چند سالوں میں ہم کوالٹی پلئیرز ڈھونڈ رہے ہونگے پی سی بی نے گذشتہ دو ڈومیسٹک سیزن میں اپنی مرضی کی ٹیمیں تشکیل دے کر فرسٹ کلاس کرکٹ تو کرالیمگران دو سالوں میں کھلاڑیوں کو کس کارکردگی پر منتخب کیا گیا اس کا جواب کوئی نہیں دیتا ، دو سالوں سے کلب کرکٹ بحال اور نہ ہی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا جاسکا ، صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کے غیر فعال عہدے داروں کی تقرری سے اب تک کوئی مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

جہاں تک کلب رجسٹریشن کے دوسرے مرحلے کا تعلق ہے وہ کلبوں کے صدور کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے ،طویل اور گھمبیر نظام میں ہر کلب کو جہاں ایک لیول ون کوچ رکھنا ضروری ہے وہیں ایک کمپیوٹر آپریٹر رکھنا ہوگا ، کلب کا صدر جو پیسہ کھلاڑیوں کی کارکردگی اور فلاح و بہبود پر خرچ کرتا تھا وہ لیول ون کوچ اور کمپیوٹر آپریٹر کی تنخواہوں پر خرچ کرے گا، اس طرز عمل سے متوسط طبقے کو کرکٹ کھیلنا اور کھلانا خاصا مشکل ہوجائے گا۔

پی سی بی کی جانب سے آخری مرتبہ کلب اسکروٹنی 2013 میں ہوئی تھی کلب اسکروٹنی ہر چھ سال بعد ہوتی تھی اس طرح 2019 کلب اسکروٹنی کا سال تھا مگرپی سی بی نے تمام ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن اور ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن تحلیل کردیں جس کی وجہ سے کلب اسکروٹنی کا عمل بھی کھٹائی میں پڑ گیا ، گذشتہ آٹھ سال میں کوئی نیا کلب رجسٹرڈ نہیں ہوا تھا ، جو کلب رجسٹریشن کے منتظر تھے۔

انہوں نے 2021 میں اپنے کلب رجسٹرڈ کرائے ہیں اس کا کریڈٹ پی سی بی کو ہرگز نہیں جا تا ، سسٹم کی خرابی سے جو تاخیر ہوئی اس وجہ سے 30 فیصد کلبوں کی تعداد بڑھ گئی ، پرانا نظام ہوتا اور اسکروٹنی کے عمل سے گزرکر کلب آتے تو شاید اس سے بھی زیادہ کلب رجسٹرڈ ہوتے پی سی بی کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے دو سال سے پورے ملک میں کلب کرکٹ کا انعقاد نہیں ہوسکا ، جب کلب کرکٹ ہی نہیں ہوگی تو کتنے عرصے اس کے حکام کھلاڑی کو دلاسہ دے کر بیرون ملک جانےاور دوسرے کھیلوں کی طرف مائل ہونے سے روک سکتے ہیں۔

دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ گذشتہ چھ سالوں میں کلب کے صدور کی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے، 15 جون 2015 کو پی سی بی کے سابقہ بورڈ آف گورنرز نے ماڈل آئین 2015 متعارف کرایا تھا اور کلب کے صدور کو اس آئین کوانڈر ٹیکننگ کے ساتھ اپنانے کو کہا گیا تھا جس پر کئی کلبز کے صدور کو تحفظات تھے ، اس آئین کے تحت کلب کے صدور کو کئی پابندیوں میں جکڑ دیا گیا ،کلب آئین 2015 کے نفاذ سے کلب کرکٹ متاثر نہیں ہوئی تھی،مگر کلب آئین 2019 سےکلب کے صدور کو ایک اور نئے امتحان میں ڈال دیا گیا،حیران کن بات یہ ہے کہ 2013 کی کلب اسکروٹنی کے مطابق پورے ملک میں کلبوں کا پورا ریکارڈ پی سی بی کے پاس موجود ہے پھر دوبارہ کلب رجسٹریشن کا ڈرامہ کیوں رچایا گیا۔

پی سی بی کی جانب سے پورے ملک میں دو سال تک 2018-2019 اور 2019- 2020 میں کلب کی سطح پر دو ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا گیا تھا ان ٹورنامنٹس میںحصہ لینے والے کلبز کو براہ راست رجسٹریشن دے دی جاتی اور نئے کلبوں سے رجسٹریشن کے لئے درخواستیں وصول کی جاتی جس سے گراس روٹ پر اتنا بڑا خلا اور کلب کرکٹ متاثر نہیں ہوتی۔

ملک میں کلب کرکٹ کا انعقاد بھی ممکن ہوجاتا، کلب رجسٹریشن پی سی بی کا کام نہیں ، اس سلسلے میں پی سی بی کو سابقہ کے سی سی اے کی کامیاب رجسٹریشن پالیسی سے رہنمائی حاصل کرنا چاہئےتھی جس میں کلب عہدیداروں کی مشکلات کو مدنظر رکھا گیا تھا ، جو پروفیسر سید سراج الاسلام بخاری سابق صدر و سیکریٹری کے سی سی اے اور دس سال تک ڈومیسٹک مانیٹرنگکمیٹی کےکے چیئرمین نے مرتب کیا تھا۔

پی سی بی ہر چھ سال بعد متعلقہ ایسوسی ایشن سے مشاورت کے بعد کلب کی اسکروٹنی کرتا تھا اور اسکروٹنی کے بعد پی سی بی کارکردگی کی بنیاد پر کلبوں کو کھیلنے اور ووٹ دینے کا حق دیتا تھا، کلب رجسٹریشن کے جاری دوسرے مر حلےمیں بہتری کی گنجائش موجود ہے، صوبائی کرکٹ ایسوسی کو فعال اور با اختیار بنا کر جہاں جہاں صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کے دفاتر ہیں وہاں کلب رجسٹریشن ہیلپ لائن کاؤنٹر قائم کئے جائیں، مرحلہ وار ہر سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے کلب عہدیداران کی رہنمائی کر کے کلب رجسٹریشن کے عمل کو مکمل کیا جائے۔