سَمتِ قبلہ کا تعین ہونے کے باوجود صفیں درست نہ بنانے کا شرعی حکم

June 04, 2021

تفہیم المسائل

سوال: ہماری مسجد میں قبلہ رخ کا ٹھیک ٹھیک تعین کرکے صفوں کے نشان لگائے گئے تھے، لیکن موجودہ امام صاحب کے حکم پر مسجد کے اس حصے میں جہاں صفوں کے نشان نہیں لگائے گئے ، جمعہ وعیدین کی نماز کے لیے قبلہ رخ سے قدرے ہٹ کر صفیں بنائی جاتی ہیں ۔ نماز جنازہ کے لیے بھی صفوں کی درستی کا خیال نہیں رکھتے ،اُن کا کہنا ہے :’’ تھوڑے فرق سے کچھ نہیں ہوتا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کسی مجبوری کے بغیر قبلہ رخ کا اہتمام کیے بغیر نماز ادا کرنا جائز ہے؟ (محمد یونس علوی ، کراچی)

جواب:استقبالِ قبلہ یعنی نماز میں قبلہ کی طرف منہ ہونا شرائطِ نماز میں سے ہے ، سمتِ قبلہ کی تعیین کے بعد ضروری ہے کہ درست سمت میں نماز ادا کریں اور سمتِ قبلہ سے معمولی سا بھی انحراف نہ کریں ۔جہتِ کعبہ کی طرف منہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ منہ کی سطح کا کوئی جز کعبہ کی سَمت میں واقع ہو ،تو اگر قبلہ سے کچھ انحراف ہے ،مگر منہ کاکوئی جز کعبہ کے مواجہہ میں ہے ، نماز ہوجائے گی ، اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار45درجہ رکھی گئی ہے ،اگر 45درجے سے زیادہ انحراف ہے ، استقبالِ قبلہ نہیں ہوا اور نماز نہ ہوئی ۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ (نماز کے دوران)کسی عذر کے بغیر(سَمتِ قبلہ سے) سینہ پھیرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ، اس سے معلوم ہواکہ تھوڑا سا انحراف نقصان دہ نہیںاوروہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ چہرہ یا چہرے کی جوانب میں سے کچھ عینِ کعبہ یا اس کی ہوا کے سامنے رہے ،اس طرح کہ چہرہ سے یا اس کی بعض اطراف سے خط نکلے ،تووہ سیدھا عین کعبہ یا اس کی ہوا کے اوپر سے گزرے اور لازم نہیں کہ نکلنے والا خط سیدھا مصلّی کی پیشانی سے نکلنے والا ہو بلکہ اس کی جوانب سے نکلے جیساکہ اس پر ’’الدُّرر‘‘ کا قول ’’مِنْ جبِیْنِ الْمُصَلِّی‘‘ دلالت کرتا ہے، کیوںکہ جبین پیشانی کے کنارے کو کہتے ہیں اوریہ دو جبینیں ہیں ، (حاشیہ ابن عابدین شامی،جلد3)‘‘۔

دور حاضر میں جدید آلات اور پیمائش کے جدید پیمانوں کی مدد سے قبلے کی ٹھیک ٹھیک سَمت معلوم کرنا نہایت آسان ہو گیا ہے، بلکہ ایسے سافٹ ویر دستیاب ہیں ، جن کے ذریعے کہیں بھی کسی بھی وقت قبلے کی درست سمت معلوم کی جاسکتی ہے ۔مساجد میں محرابیں سَمتِ قبلہ کا تعین کر کے بنائی جاتی ہیں، اس کو دیکھ کر صفیں درست بنانی چاہئیں اور مسجدوں اور محرابوں کا اعتبار کیاجائے گا۔امام اہلسنّت امام احمد رضاقادریؒ لکھتے ہیں:’’ شارح امام زیلعی نے فرمایا: محاریب کے ہوتے ہوئے اجتہاد اورغور وفکر کی ضرورت نہیں ‘‘۔حِلیۃ میں ہے : ترجمہ:’’ نمازی کے لیے محراب عین کعبہ کی طرح ہے، اسی لیے کسی شخص کو رَوا نہیں کہ وہ محاریب میں اجتہاد یا غوروفکر کرے ،(فتاویٰ رضویہ ،جلد6، ص:70) ‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی ؒ ’’ردالمحتار ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’اگر مسجدیں اور محرابیں وہاں ہیں ، مگر اُن کا اعتبار نہ کیا ،بلکہ اپنی رائے سے ایک طرف کو متوجہ ہولیا یا تارے موجود ہیں اور اس کو علم ہے کہ ان کے ذریعے معلوم کرلے اورنہ کیا بلکہ سوچ کر نمازپڑھ لی ، دونوں صورتوں میں نماز نہ ہوئی ، اگر خلافِ جہت کی طرف پڑھی،(بہارِ شریعت ، جلد اول)‘‘۔آپ کی مسجد میں قبلے کی درست سَمت کا تعین ہونے کے باوجود امام صاحب کا قبلے سے ہٹ کر صفیں بنوانا درست نہیں ، زیادہ سے زیادہ 45درجے تک انحراف کے ہوتے ہوئے نماز کے جواز کی گنجائش تب ہے ، جب سَمتِ قبلہ مُتعین نہ ہو ،جبکہ آپ کے بیان کے مطابق آپ کی مسجد میں سَمتِ قبلہ کا تعین کرکے صفوں کے نشانات لگائے گئے ہیں ، پس امام صاحب کا یہ قول درست نہیں کہ ’’تھوڑے فرق سے کچھ نہیں ہوتا ‘‘۔

فقہائے کرام نے جو سَمتِ قبلہ سے معمولی انحراف کے باوجود نماز کے جواز کی بات کی ہے ، وہ اس پر محمول ہے کہ سَمتِ قبلہ مُتعین نہیں ہے اورکوئی تحرّی کرکے ایک جانب نماز پڑھتا ہے ، جس کی بابت بعد میںمعلوم ہوتا ہے کہ سَمتِ قبلہ سے قدرے انحراف تھا ،تو نماز جائز ہوجاتی ہے ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لینا چاہیے کہ سَمتِ قبلہ کا تعین ہوچکا ہے اور پھر جان بوجھ کر اس سے انحراف کیاجائے، پس امام صاحب کو فقہی جزئیات کی غلط تعبیر کے بجائے مُتعین سَمتِ قبلہ پر نماز پڑھانے کا التزام کرنا چاہیے ۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheemjanggroup.com.pk