کوئی قیامت سی قیامت ہے

June 13, 2021

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

یہ 1992ء کی بات ہے، جب میری سہیلی آمنہ کی شادی ہوئی، تو وہ راول پنڈی سے رخصت ہوکر آزاد کشمیر، لائن آف کنٹرول پرچلی گئی۔ اس علاقے میں بھارتی جارحیت ہمیشہ اپنے عروج پر رہتی ہے۔ اُن دنوں بھی اُس علاقے میں دشمن ملک بھارت کی طرف سے آئے روز فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ جس میں بے گناہ شہری لقمہ اجل بن رہے تھے۔

قابض بھارتی افواج ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری کی مسلسل خلاف ورزیاں کرتے ہوئے خودکار ہتھیاروں کے ذریعے عام شہری آبادیوں کو نشانہ بنارہی تھیں،حالاں کہ شہری آبادیوں کو دانستہ نشانہ بنانا انتہائی قابلِ افسوس، انسانی عظمت و وقار، عالمی انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قوانین کے صریحاً منافی ہے۔ پاک فوج کی طرف سے منہ توڑ جواب دینے پروقتی طور پر یہ سلسلہ رک جاتا، لیکن بزدل بھارت باز نہ آتا اورچند روز بعد بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیتا، جس کے نتیجے میں بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہورہے تھے۔

میری سہیلی، آمنہ کے پڑوس میں اس کےشوہر کا ایک قریبی دوست رہتا تھا۔ دوست کے گھر بچّے کی ولادت ہوئی، تو آمنہ کا شوہر مبارک باد دینے کے لیےاپنی والدہ اور آمنہ کو ساتھ لے کر اُن کے گھر گیا۔ سب خوشی خوشی وہاں پہنچے، دوست کے گھر والوں نے بھی اُن کا پُرتپاک خیرمقدم کیا۔ سردیوں کے دن تھے، ایسے میںدھوپ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ سو، انہوںنے آنگن ہی میں چارپائیاں ڈال لیں۔

سب وہیںبیٹھ گئے، ننھے بچّے کو بھی دھوپ میںلے آئے، سب نے ایک دوسرے کو مبارک دینے کے بعد نومولود کو منہ دکھائی بھی دی۔ بچّہ بھی ایک طرف جھولے میں لیٹا دھوپ کے مزے لے رہا تھا۔ اسی اثناء اُن کے خاندان کی ایک سات آٹھ سالہ بچّی نے نومولود کو اُٹھایا اور اِدھر اُدھر ٹہلنے لگی۔سب خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ اچانک لائن آف کنٹرول کے اُس پار سے تڑاتڑ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ افراتفری کے عالم میں سب اُٹھ کےکمروں کی جانب بھاگنے لگے، اچانک بچّی پر نظر پڑی، تو نومولود تو بدستور اس کی گود میں تھا، لیکن بچّی کے بازو سے بہت تیزی سے خون بہہ رہا تھا، جس سے اُس کی قمیص سُرخ ہوگئی تھی۔

ایک خاتون نے فوراً بچّی کے ہاتھوں سے ننّھے بچّے کولے کر چارپائی پہ لٹادیا، پھر سب بچّی کا بازو دیکھنے لگے کہ شاید اُسے گولی لگی ہے، مگر اس کے بازوپرگولی کے زخم کا کوئی نشان نہیں تھا۔ اور پھر..... چند ثانیے بعد ہی یہ آشکار ہوا کہ گولی، بچّی کے بازو پر نہیں، بلکہ جس بچّے کی پیدائش پرکچھ دیر پہلے سب خوشیاں منا رہے تھے، اُس کے سر میں لگی ہے۔ یہ اندوہ ناک منظر دیکھ کر میری سہیلی آمنہ غش کھا کر گر پڑی۔ اُسے اس طرح بے ہوش ہوکر گرتے دیکھ کر اُن ہی لوگوں میں سے کسی کی آواز آئی کہ ’’ہم لوگ یہ ظلم روز دیکھتے ہیں، اس لڑکی کو سنبھالو، جس نے پہلی بار یہ کہرام دیکھا ہے۔‘‘ (نگینہ طارق، راول پنڈی)