مجبوروں کا استحصال

June 11, 2021

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

جب کوئی شخص یا گروہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کے ساتھ دوسرے لوگوں کا کیا رویہ ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں، اور وہ یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ تو احسان وایثار اختیار کرنے کا ہے، لیکن گنجائش عدل کا راستہ اختیار کرنے کی بھی ہے، احسان سے مراد خود ظاہری نقصان اٹھا کر اور ایثار سے کام لے کر دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہے، جیسے ایک چیز کی اصل قیمت سور روپے ہے، مگر کوئی ضرورت مند سو روپے ادا کرنے سے قاصر ہے، وہ اسّی روپے ہی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے تو بیس روپے کے نقصان کے ساتھ ضرورت مند کو فروخت کر دے، یہ بہت بہتر عمل ہے اور احسان کا رویہ اختیار کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں: اِن اللہ یحب المحسنین (سورۃالبقرہ: ۱۹۵)عدل کے معنی یہ ہیں کہ نہ خود نقصان اٹھایا جائے اور نہ دوسرے کو نقصان پہنچایا جائے، اگر ایک شے کی واجبی قیمت سوروپے ہے تو ضرورت مند سے سوروپے ہی لئے جائیں، نہ زیادہ لیا جائے اور نہ کم، اگر آدمی احسان پر عمل نہ کر سکے تو عدل کی راہ پر قائم رہنا تو شرعاً واجب ہے۔

احسان اور عدل کے مقابلے تیسرا طریقہ ظلم واستحصال کا ہے، استحصال سے مراد ہے کسی کی مجبوری اور ضرورت مندی سے فائدہ اٹھانا، ایک شے کی مروجہ قیمت سو روپے ہے، لیکن جو شخص اسے خرید کرنا چاہتا ہے، وہ اس کا ضرورت مند ہے، وہ بہر قیمت اسے خریدنے پر مجبور ہو تو اس کی ضرورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوروپے کی چیز ایک ہزار روپے میں فروخت کی جائے، جس جگہ جانے کا کرایہ سور وپے ہو ، ضرورت مند شخص سے اس کے دو سو روپے لئے جائیں، یہ طریقہ’’ استحصال‘‘ ہے۔

استحصال ظلم اور گناہ ہے، حدیث میں اس کی مثال’’ بیع مضطر‘‘ کی ممانعت ہے۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے مضطر کے پیسے سے منع کیا ہے۔ (سنن صغیر للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۹۹۶)یہاں تک کہ حضرت حذیفہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: مخلوق کا بدترین شخص وہ ہے جو ایسے مجبور شخص سے خرید وفروخت کرے، اور دو بار فرمایا : آگاہ ہو جاؤ! بیع مضطر حرام ہے۔(جامع المسانید والسنن، حدیث نمبر: ۲۳۸۳) مضطر سے یہی مراد ہے کہ جو شخص کسی چیز کے خریدنے پر مجبور ہو، اس سے بہت زیادہ قیمت میں وہ چیز فروخت کی جائے، فقہاء نے خرید وفروخت کے اس معاملے کو فاسد قرار دیا ہے۔ (در مختار مع الرد: ۵؍۵۹) جس شخص نے اپنی مجبوری کی وجہ سے اسے خرید کر لیا وہ تو اس کا مالک ہو جائے گا اور اس کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہوگا، لیکن بیچنے والے کے حق میں مروجہ قیمت سے زیادہ قیمت جائز نہیں ہوگی۔

استحصال کی جو بھی صورت ہو، شریعت نے اسے منع فرمایا ہے، استحصال ہی کی ایک صورت ذخیرہ اندوزی ہے، یعنی اشیاء ضرورت کو روک لینا اور اس کی مصنوعی قلت پیدا کرنا، تاکہ گرانی بڑھے اور لوگ مہنگے داموں میں سامان خریدنے پر مجبور ہوں ، عربی زبان میں اسے ’’ احتکار‘‘ کہتے ہیں، آپ ﷺنے اسے بہت ہی ناپسند فرمایا ہے، حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺنے ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ (کنز العمال، حدیث نمبر: ۹۷۱۶)۔

اسی طرح استحصال کی ایک صورت وہ ہے، جسے حدیث میں ’’ بیع الحاضر للبادی‘‘ کہا گیا ہے، یعنی دیہات کا کاشت کار اپنی پیداوار لے کر شہر آتا تو شہر کے تاجر یہ سوچ کر کہ اس کے مال لانے کی وجہ سے شہر میں سامان کی قیمت گر جائے گی، اس کو خود خرید کر لیتے اور اپنے لحاظ سے بیچتے، آپ ﷺنے اس صورت کو منع فرمایا (بخاری عن ابو ہریرۃؓ، حدیث نمبر: ۲۱۴۰) یہ بھی عوام کے استحصال کی ایک صورت ہے کہ بازار کو سستا نہ ہونے دیا جائے اور کوشش کرکے اسے مہنگا رکھا جائے۔

ہرّاج میں بعض دفعہ کچھ لوگوں کا ارادہ خرید کرنے کا نہیں ہوتا،مگر وہ اس لئے بڑھ کر بولی لگاتے ہیں کہ سامان کی قیمت بڑھ جائے، اسے عربی زبان میں ’’ نجش‘‘ کہتے ہیں، آپ ﷺنے اسے بھی منع فرمایا ہے، ( بخاری، حدیث نمبر: ۲۱۴۰) یہ بھی استحصال ہی کی ایک صورت ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ جو چیز سستی مل سکتی تھی، اسے مہنگا کر دیا جائے۔

یہ تو چند مثالیں ہیں، لیکن شریعت میں جو ظلم سے منع کیا گیا ہے، یہ ممانعت تمام صورتوں کو شامل ہے، خواہ کسی کی جان پر ظلم ہو ، کسی سے بے جا طریقہ پر مال حاصل کیا جائے، مدد کے موقع پر مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جائے، سستی چیز کو مہنگا کر دیا جائے، مناسب اجرت سے کہیں بڑھ کر مطالبہ کیا جائے، کام پورا لیا جائے، اجرت کم دی جائے، کام لے لیا جائے اور اُجرت ادا کرنے میں تاخیر کی جائے، یہ سب ظلم واستحصال کی مختلف صورتیں ہیں، موجودہ حالات میں مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کریں، اور فی سبیل اللہ انہیں راحت پہنچائیں، لیکن یہ تو بہر حال ضروری ہے کہ جس طرح اس وقت لوٹ مچائی جارہی ہے، اس سے اپنے آپ کو بچائیں، جن مسلمانوں کے میڈیکل اسٹور ہیں، وہ بیماری میں کام آنے والی دوائیاں واجبی قیمت میں مہیا کرائیں،جو ہسپتال ہیں، وہ وہاں مناسب قیمت پر بیڈ اور وینٹی لیٹر کی سہولت فراہم کریں، جن زیر انتظام اداروں کے پاس ایمبولینس ہیں، وہ معمول کے کرایے پر ہی مریضوں کو پہنچائیں، مسلمانوں کے لئے یہ سوچنا کہ ’’ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ درست نہیں ہے، ہوا کا رُخ جو بھی ہو، اہل ایمان کافرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو شریعت کے حکم پر قائم رکھیں، لوگوں کے ساتھ ہمدردی ، خیر خواہی، محبت اور حُسن سلوک سے پیش آئیں، مسلمانوں کا یہ سلوک اُن کے لئے دنیا میں بھی نیک نامی کا باعث ہوگا اور ان شاء اللہ آخرت میں بھی نیک انجامی کا ذریعہ بنے گا۔