حلال وحرام کی بحث کیا پھر!

June 11, 2021

پاکستان میں حلال اشیاء کے لئے باقاعدہ ایک ادارہ بنایاجا رہا ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ مرغی بیچنے والا، ایک طرف آپ کو مرغی کی قیمت بتا رہا ہے وہیں ساتھ ساتھ تیزی سے کلمہ اور تیزی سے چھری چلاتا نظر آتا ہے۔ ہم تو حلال چیزوں خاص کر حلال گوشت، سارے مغربی ممالک میں یہودیوں کی دکانوں سے خریدنے جاتے تھے اور اب مغرب میں حلال گول گپوں سے لیکر برگر اور حلال حلیم، سبھی کچھ چلتا ہے تو پھر ہمیں ایک اور ادارہ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہےجبکہ حلال کا لفظ بیانیہ میں آئے گا تو پھر سارا سرمایہ جو اسمگلنگ، ڈرگز اور آج کے فیشن کی کمائو، ہائوس بلڈنگ اور کارپوریشنز کے ذریعے کشید کیا ہوا ، اس کو حلال کرنے کا جواز دینے کے لئے مولانا طاہر اشرفی جیسے جہاں دیدہ شخصیت، حلال کا فلسفہ اور سبق ازبر کئے ہوئے ہیں۔ پہلے وہ فقیروں سے ملا کرتے تھے اور اب سفیروں سے ملتے ہیں ۔ یہ بات یہیں چھوڑیں۔

پاکستان میں ہم روز شادیوں کے بے تحاشہ اخراجات پر اعتراض کرتے ہیں جو جائز ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ کفایت شعاری کی مثالیں یا تو پرانے خلفاء کے زمانے میں ملتی ہیں۔ یا پھر مغرب کی جانب دیکھیں تو بورس جانسن کی شادی نظر آتی ہے جس میں دلہن کرائے کا لباس پہن کر آئی اور چند لوگوں کے ساتھ تقریب کو انجام پر پہنچایا۔ امیروں کی تو بات ہم کر ہی نہیں سکتے مگر ہماری بٹیا بختاور کی شادی اور ولیمے میں مغلیہ انداز دہرائے گئے ایک اور خصوصیت یہ چل پڑی کہ نکاح مسجد میں پڑھوایا جاتا ہے پھر ا سکے بعد فارم ہائوس، میلہ ٹھیلہ، غریب بے چارہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ کے چکر میں اور غریب ہوتا جا تا ہے۔

پھر مغرب کی بات کا ذکر، فن لینڈ ایسا ملک ہے کہ اس وقت وہاں حکومت خواتین چلا رہی ہیں، بے چاری وزیراعظم روز جو ناشتہ کرتی تھی خزانے والوں نے ناشتے کا بل بھجوا دیا ہے۔ مجھے اپنے وزیراعظموں اور صدروں کے زمانے یاد آئے جب ’’ون بائٹ‘‘ سینڈوچز اور پیٹسز بہت اور ہر وقت ملتے تھے۔ آج کی حکومت میں وزیراعظم کہتے ہیں کہ تنخواہوں میں ان کے باورچی خانے کا خرچہ نہیں نکلتا۔ حلال کمائی تو پھر ایسی ہوتی ہے۔


ہمارے ملک میں صدر اسٹیٹ بینک تک کورونا کے اشتہاروں کا حصہ بن گئے ہیں۔ شیخ رشید کے تو دن ہی پھر گئے ہیں۔ ان کے بقول ان کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو ہمارے بڑے کیا کہتے ہیں……بس۔

پاکستان کی ایک اور بیٹی ملالہ کے بیان پر پوپلزئی صاحب کوخاص طور پر غصہ آیا، دراصل اس دفعہ انہوں نے اکیلے عید نہیں کی، اس کا بھی شاید ملال ہے اور پھر ٹیلی وژن اسکرین خوبصورت چغوں کے ساتھ طاہر اشرفی کے نظر آنے کوبھی، دیگر علماء حیرت کر رہے ہونگے کہ کل تک تو اشرفی صاحب اپنے گرو کے پہلو میں نظر آتے تھے۔ ’’یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا۔‘‘ مبارک ہواشرفی صاحب کو اعزاز، مگر انہیں بھی ملالہ پر تنقید اس لئے نہیں کرنی چاہئے کہ ان کے سامنے آج کے سیاستدانوں کے مغرب میں پلے بڑھے بچے کچھ بولیں تو ان کو مذہبی رعونت سے نہیں، اپنی تہذیب کے حوالے سے کتابیں پڑھنے کو دیں۔ ان کو سمجھائیں نہیں، خود سمجھنے دیں۔ اس وقت مغرب میں دو طرح کے عذاب ہیں۔ ایک تو نسل پرستی اس حدتک بڑھ گئی ہے کہ ملکہ برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ کوئی کالا ان کے محل کے اسٹاف میں نہ ہو۔ دوسرے داعش اور بوکر حرام جیسے گروہوں کا بہانہ بنا کر، افغانی طالبان کا بلاوجہ، پڑھے لکھے لوگوں پر بم برسانا، کہاں کی عقلمندی ہے۔ افغانستان میں تووہ صحافی جو بطور مترجم کام کر رہے تھے، ان کوبھی بے موت مار دیا گیا ہے۔ اس طرح کے مذہب کے نام پر بنے 79گروپوں کو 2001میں بین کیا تھا مگر عید کے موقع پر جب فہرست اخبار میں دیکھی تو تعداد دگنی ہو گئی تھی۔ اس وقت بھی اسلام آباد میں جو پراپرٹی ڈیلرز کا فلو آیا ہوا ہے اس میں بیشتر افغانی ہیں۔ عورتوں کے بارے میں ان کے رویئے کا ذکر بی بی سی پر دستاویزی فلم میں پڑھی لکھی افغان خواتین نے کیا ہے۔ 1979سے یہ غلغلہ مذہب کے نام پر سوات، شمالی وزیرستان اور پاکستان کے عملی اداروں اور شخصیات کو نامعلوم افراد کے ذریعے قبروں میں اتار رہا ہے۔ ادھر برٹش کولمبیا کے اسکول میں 215کالے بچوں کی باقیات سفید فام لوگوں کی دوسری رنگت کی نسلوں کومٹانے کی تحریک کچھ اچھے نتائج نہیں لائے گی۔

کالم کے آخر میں انڈیا میں ایک مقدمہ کی مثال، ہم سب کا جانا پہچاناونود دعا پر غداری کا مقدمہ چل رہا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمے کوختم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’صحافی غدار کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسے معاملات میں تو وہ محافظ کا کردار ادا کرتا ہے۔‘‘ یہاں مجھے پاکستان کی خاتون اور مرد صحافی کو بتانا ہے کہ کامیابی کئی دفعہ حسد کے جذبات بھی پیدا کر دیتی ہے۔ تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔