قابلِ غور

June 11, 2021

پورا ملک شدید گرمی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی لپیٹ میں ہے۔اس صورتحال میں شہری دہرے عذاب سے دوچار ہیں ۔کہ نہ تو گرمی کی وجہ سے گھروں سے باہر نکل سکتے ہیں نہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گھروں کے اندر رہ سکتے ہیں۔ کورونا سے نکلے ہی تھے کہ گرمی نے آن گھیرا۔ اوپر سے لوڈشیڈنگ نے جینا محال کردیا ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے تو ویسے ہی زندگی کو عذاب بنادیا ہے لیکن آفرین ہے وفاقی اورصوبائی وزرائے تعلیم پر، جنہوں نے پرائیوٹ اسکولز مالکان کے دبائو پر اسکولز کھولنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے فیسیں بٹورنے اور اپنی جیبیں بھرنے کے لئے اس مجبور حکومت کو مجبور کیا ۔ اسکولز کھولنے کے اس فیصلے سے نہ صرف پرائیوٹ اسکولوں کے بچے بچیاں متاثر ہورہے ہیں بلکہ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچے اور بچیاں جن کا تعلق زیادہ تر غریب گھرانوں سے ہے، وہ بھی اس نادر شاہی فیصلے کی زد میں ہیں۔گزشتہ روزاسلام آباد کے نواحی علاقہ میں ایک سرکاری اسکول کے چند بچے بیہوش اور نکسیر پھوٹنے کا شکار ہوئے اساتذہ کے مطابق شدید گرمی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ بچے برداشت نہ کر سکے۔ غضب خدا کا ! یہ کوئی یورپی ملک یا امریکہ ہوتا تو پوری حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی لیکن یہاں ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھنے والے وزرا اور اعلیٰ افسروں کے کان پرجوں تک نہیں رینگی کیونکہ نہ صرف وہ خود ٹھنڈے دفتروں،ٹھنڈی گاڑیوں اور ٹھنڈے گھروں میں رہتے ہیں بلکہ ان کے بچے بھی بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ واپس آکر انہوں نے بھی اس بدنصیب قوم پر حکمرانی اور افسری کرنی ہوتی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے افراد اور کردار تبدیل ہوئے ہیں مگر اس ملک میں بشمول بھارت کے ایجنڈا تبدیل نہیں ہوا۔ عدالتی نظام ہے یا پولیس کا نظام، افسر شاہی ہے یا پٹواری اورسرکاری دفاتر کے کلرک، سب کا وہی حاکمانہ مزاج ہے جو انگریز دور میں تھا۔ عوام کو غلام اور حقیر سمجھنا اور ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا سلسلہ جیلوں سے لے کر سرکاری دفاتر تک میں افسری کی شان سمجھا جاتا ہے ۔

شدید گرمی میں بچے، بوڑھے، مریض اور خواتین سب لوڈ شیڈنگ کے ظلم کا شکار ہیں۔ حکومتی ذرائع کم ازکم یہ تو تسلیم کرچکے ہیں کہ سابقہ حکومت نے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیاتھا اور بجلی کی طلب ورسد میں تفاوت کو برابر کیاتھا۔ اس لئے ملک میں بجلی وافر مقدار میںموجود ہے۔لیکن سابقہ حکومتوں نے بجلی کے ترسیلی نظام کو اپ گریڈ کرنے پر توجہ نہیں دی تھی۔ اس لئے اس نظام میں فنی خرابی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کرنی پڑرہی ہے۔ حکومتی کرتا دھرتا عوام کو اس بات کا جواب دیں کہ دنیا جہاں کی ساری خرابیاں جن میں لاکھ کوششوں کے باوجود ابھی تک ایک بھی ثابت نہیں ہوسکی اور یہ قصور بھی سابقہ حکومت کا ہے تو اب آپ اپنا بھی تو بتادیں کہ ان تین سال میں بجلی کے ترسیلی نظام میں بہتری کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ بہتری تونہیں نظر آئی البتہ بدتری سب کے سامنے ہے۔ حکومت کم ازکم طلبہ وطالبات پرتو رحم کرے۔جب کورونا جو قدرتی عذاب تھا توگرمی بھی قدرت کی طرف سے ہے تواس وقت جب آن لائن کلاسز ہوسکتی تھیں تو پھر اب کیوں نہیں۔ خدارا! بیمار ہوتے بچوں پر رحم کریںاور اسکولوں میں تعطیلات کا اعلان کریں،یہ معصوم ہیں اور ’’ غیر سیاسی‘‘ ہیں۔

ایف آئی اے کے ڈی جی واجد ضیا کی اچانک تبدیلی تمام حلقوں کے لئے حیران کن ہے۔ پانامہ معاملے اور حکومتی احکامات واقدامات کی تندہی سے تعمیل کرنیوالے افسر کواس اہم عہدے سے ہٹانے اور بیوروکریسی کی زبان میں کھڈے لائن لگانے کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہورہی ہیں جن کے جواب میں وزیر اعظم کے مشیر خاص جو وفاقی وزیرداخلہ کے موجود ہونے کے باوجود نیب اور ایف آئی اے کے معاملات کے نگران ہیں اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کوبھی اس وزارتی بٹوارےپرکوئی اعتراض نہیں ہے توکسی اور کو اعتراض کا کیا حق ہے،اُن کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی معمول کی کارروائی ہے اور اس کی کوئی خاص وجہ یا وجوہات نہیں ۔ اس وضاحت کے بعد اس تبدیلی کے بارے میں اب تمام قیاس آرائیاں اور تاویلیں بے معنی ہوگئی ہیں۔ لیکن شکوک وشبہات برقرار ہیں۔’’ بعض‘‘ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم آفس سے ڈی جی واجد ضیا کو دیئے جانے والے احکامات پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہونا اور منی لانڈرنگ وغیرہ کیسوں میں ناکامی ،ثبوتوں کو پورا کرنے میں دلچسپی نہ لینا بھی اس تبدیلی کی پس پردہ وجوہات میں شامل ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں مشیر خاص شہزاد اکبر نے ایف آئی اے لاہور کا دورہ کیاتھا اور بعض احکامات براہ راست متعلقہ افسران کو دئیے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ تبدیلی اچانک بالکل نہیں آئی ، اس پر گزشتہ کچھ ماہ سے غور وفکر ہورہا تھا اور چند ’’ بے خبروں‘‘ کواس کی خبر بھی تھی لیکن بعض باتیں بوجوہ وقت سے پہلے آشکار کرنا مناسب نہیں ہوتا۔

ڈہر کی ٹرین حادثہ انتہائی المناک ہے جس میں70انسانی جانیں چلی گئیں۔ کئی معذور ہوگئے۔ حسب معمول اس واقعہ پر وزیر ریلوے مستعفی نہیں ہوئے بلکہ اس حادثہ کوبھی سابقہ حکومت کے وزیر ریلوے سعد رفیق کے متھے لگادیا ۔ یہ اچھا طریقہ ہے کہ جوبھی خرابی سامنے آئے۔ بلاجھجک سابقہ حکومتوں کے کھاتے ڈال دو اور خود کو خود ہی بری الذمہ قرار دے دو۔ یہ تو شکر ہے کہ پاک فوج اور رینجرز موجود ہیں۔ جو بروقت ان لاوارثوں کی مدد کے لئے پہنچے۔اگر پاک فوج اور رینجرز کے جوان نہ ہوتے تو دوسرے دن تک اس شدید گرمی میں لاشیں بھی دبی رہتیں اور زخمی بھی بے یارومددگار تڑپ رہے ہوتے۔ اس بات کا جواب کون دے گا کہ سابقہ دور کے چور اچکوں کی لوٹ مار اور تباہی کے بعد فرشتوں اور پاکبازوں نے تین سال میں ریلوے حادثات کی روک تھام کہ لیے کیا کیا؟ بس یہی کہ بے گناہ دنیا سے رخصت ہوئے، کئی گھر اجڑ گئے اور چند افسران کو معطل کیاگیا۔ اور خیر صلاً۔