74 سال بعد بھی تعصبات اور نفرتیں کیوں؟

June 13, 2021

آج اتوار ہے۔ اپنے گھر میں مستقبل کے مکینوں سے ملنے کا دن۔ میں تو اکثر اپنے درو دیوار کو دیکھتا ہوں۔ پھر اپنے پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کو۔ آنے والے ماہ و سال ان کے ہیں۔

آبائی گھروں میں دیواریں۔ محرابیں۔ دروازے آپ کو آبائو اجداد کی یاد دلاتے ہیں۔ کتنی لگن۔ محبت سے انہوں نے ہمارے لیے یہ فصیلیں کھڑی کیں۔ چوبارے تعمیر کروائے۔

ابھی مجھے خیال آرہا ہے کہ ہماری زبانوں اُردو۔ پنجابی۔ سندھی۔ سرائیکی۔ بلوچی۔ پشتو۔ براہوی۔ ہندکو۔ کشمیری۔ بلتی میں رشتوں کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے۔ جبکہ انگریزی میں ننھیال ددھیال سب کے لیے ایک لفظ ۔ انکل۔ گرینڈ سن۔ گرینڈ ڈاٹر۔ پھر ہم اپنی طرف سے ماموں کے لیے میٹرنل انکل کی اصطلاح بناتے ہیں۔ ہماری زبانوں میں خالہ۔ چچی۔ نانی۔ پھوپھی۔ ماموں۔ پھوپھا۔ پوتا پوتی۔ نواسہ نواسی۔ بھتیجی۔ بھانجی۔ سب الگ الگ شناختیں ہیں۔

ہماری روایات و ثقافت۔ ہماری زمینیں۔ محبت۔ پیار لگن سے مالا مال ہیں۔

ہماری مادر وطن اب پاکستان کے نئے نام سے تو 74سال سے بیٹوں۔ بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں کو گود میں کھلارہی ہے۔ تربیت کررہی ہے۔ لیکن اس سے پہلے بھی کئی صدیوں سے وہ نسلوں کی تربیت میں مصروف ہے۔ کہیں ہمیں پانچ ہزار سال پہلے کی زندگی کے آثار مل رہے ہیں۔ کہیں آٹھ ہزار۔ کہیں دس ہزار برس پیشتر کے۔

آپ ان صدیوں کو اپنا سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ لیکن آپ ان ہی صدیوں کی پیداوار ہیں۔ آپ کی ذہنی جسمانی ساخت میں ان صدیوں کا بہت عمل دخل ہے۔ تہذیبیں صدیوں کے جلو میں ہی ترتیب پاتی ہیں۔ تمدّن ان ہزاروں برس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہی تنوع حاصل کرتا ہے۔ یہ تسلسل ہی انسان کو مہذب بناتا ہے۔ گفتگو میں شائستگی کا سر چشمہ بنتا ہے۔

اور جب کسی گفتگو میں ناشائستہ لفظ در آئیں۔ یا نوبت دھول دھپے، تھپڑ تک پہنچ جائے تو اندازہ ہونے لگتا ہے کہ تربیت میں کہیں رخنہ پڑ گیا تھا۔ دونوں میں سے کوئی اپنی صدیوں کو اپنا نہیں سمجھتا۔ کسی بھی تہذیب میں یہ رخنے بڑا خلا پیدا کردیتے ہیں۔

بعض انسانوں کو یہ طاقت تو حاصل ہوجاتی ہے کہ وہ اس خلا کو یا خلیج کو اسی طرح پاٹ لیتے ہیں۔ جیسے حدیقہ کیانی کی آواز میں ہوا دیواریں پھاند لیتی ہے۔

لیکن پرورش میں جو فاصلہ (گیپ) آجاتا ہے وہ انسان یا قوم کی اخلاقیات بگاڑ دیتا ہے۔ جنوبی ایشیا اور خاص طور پر یہ علاقہ جس میں پاکستان موجود ہے۔ یہاں تو اکثر خلا رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بہت سے گیپ آئے ہیں۔ جنہیں بھرنے کی بجائے پھاندنے کو نظریہ جان لیا گیا۔

ہماری تاریخ ایسے گڑھوں بلکہ گھاٹیوں اور چھلانگوں سے بھری پڑی ہے اور اب ان گڑھوں کو پھلانگنے کے لیے جدید کمیونیکیشن ٹیکنالوجی آگئی ہے۔ یہ تو بہت ہی چھلانگیں لگوارہی ہے۔ گڑھوں۔ گھاٹیوں کو پُر کرنے سے گریز کی عادت کو اور پختہ کررہی ہے۔

ٹیکنالوجی اور تہذیب میں ہمیشہ اسی لیے تصادم رہتا ہے۔ 22کروڑ کی آبادی میں 18کروڑ کے پاس موبائل فون اگر کسی قوم کے مہذب ہونے کا ثبوت ہوتے تو ہم پاکستانی دنیا میں سب سے زیادہ مہذب اور شائستہ ہوتے۔

پہلے تو آپ اس واقعے کو قومی المیہ سمجھیں کہ ہماری اشرافیہ۔ جنہیں معاشرے کی کریم(مکھن) کہا جاتا ہے اور جنہیں ٹاک شوز میں بلاکر ہمارے میڈیا مالکان اور اینکر پرسن قوم کی ذہنی تربیت کروانا چاہتے ہیں۔ وہ اگر زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا۔ کی عملی تصویر بن جائیں تو آپ اس قوم کی اخلاقی گراوٹ کا اندازہ کرلیں۔

یہ اسمبلیوں میں ہماری نمائندگی کرتے ہیں۔ ہماری تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔ ان کی تربیت میں پائے جانے والے گڑھے اور گھاٹیاں ہماری تقدیر میں بھی وہ گڑھے گھاٹیاں پیدا کرتے ہیں۔آج میں اپنی مادر وطن سے مخاطب ہورہا ہوں۔ پیشگی معذرت اور معافیوں کے ساتھ۔ 74سال بہت طویل عرصہ ہے۔ کسی ماں کے لیے اپنی اولاد کو تربیت دینے کا۔

1947میں ہم کتنے شائستہ تھے۔ ہم صرف انسان تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں مزید شائستہ مزید مہذب ہونا چاہئے تھا۔ محبتیں۔ لگن اور قربتیں ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہونی چاہئے تھیں۔ اگر اس 74سالہ سفر پر نظر ڈالی جائے تو ہم بتدریج زیادہ متعصب۔ زیادہ بد زبان۔ زیادہ جھگڑالو ہوتے گئے ہیں۔

کیا مائیں ایسی پرورش کرتی ہیں۔ مائیں تو ہمیشہ بچوں کو آس پاس کے گھروں کے بچوں کی مثالیں دے کر ذمہ دار بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ کامیاب رشتے داروں کی مثالیں دیتی ہیں۔

اے مادر وطن! ﷲ نے تو ہمیں سمندر سے نوازا۔ جس میں کتنی وسعت ہے۔ مگر ہم تو ایک جوہڑ کی طرح محدود ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر نے کتنے رواں گنگناتے دریا دیے، میٹھے پانی سے بھرے۔ لیکن ہمارے بول تو کڑوے ہوتے جارہے ہیں۔ تو نے اے ماں یہ خیال تو رکھا ہوگا کہ کچھ بیٹے بہت کمزور ہیں۔

ان پر زیادہ توجہ اور غذائیت کی ضرورت ہے۔ کچھ کو غذا زیادہ مل رہی ہے لیکن مامتا تو ایک سی ہوتی ہے۔ کچھ کے پاس آبادی زیادہ ہے۔ وسائل کم ہیں۔ کچھ کے پاس قیمتی وسائل زیادہ ہیں۔ لوگ کم ہیں۔ بہتر ماحول تو یہ ہوتا کہ ایک دوسرے سے پیار میں اضافہ ہوتا اور ایک دوسرے کے کام آتے۔ مگر فاصلے بڑھتے رہے۔نفرتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔

آج 74سال بعد چھوٹے صوبوں کا لہجہ اتنا تلخ نہیں ہے۔ جتنا بڑے صوبوں کا ہے۔ چھوٹے صوبوں کو تو بڑے صوبوں کی اجارہ داری اور بالادستی سے احساس محرومی ہوتا تھا۔ لیکن اب بڑے صوبوں کو کس سے خوف ہے۔ چھوٹے صوبے تو اپنا حق بھی حاصل نہیں کر سکے۔ وہ بڑے صوبوں کو کیا زک پہنچاسکتے ہیں۔ پنجاب جو ہمیشہ قومی سا لمیت کا دعویدار ہوتا تھا۔ وہاں بھی اب پنجاب اور پنجابی قائد کی بات کی جارہی ہے۔

میری ماں میری زمین! چین کو ہم اپنا دوست تو خیال کرتے ہیں لیکن ہم پیروی کرتے ہیں امریکہ۔ برطانیہ کی۔ سعودی عرب۔ دبئی کی۔ حالانکہ یہ سب ہمارے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کرتے۔ چین برابری کا برتائو کرتا ہے۔ اپنے ہمسایہ ملکوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی پالیسی اپناتا ہے۔ چین سے قربت کے 70سال ہمارے اندر چین کی کوئی خوبی پیدا نہیں کرسکے۔ اسکا ذمہ دار کون ہے۔؟

چین نے تو یہ ثابت کیا کہ بیرونی قرضے۔ امداد لیے بغیر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔غربت ختم کی جاسکتی ہے۔ کورونا جیسی وبا پر پہلے تین چار ماہ میں ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔ گڑھوں گھاٹیوں کو بھرکر شاہراہیں بنائی جاسکتی ہیں۔میری سوہنی دھرتی ۔

میرا ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے اندر یہ تعصبات۔ یہ نفرتیں۔ بد زبانی۔ اور ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی عادتیں کس نے پیدا کی ہیں۔ داتا گنج بخشؒ۔ خواجہ فرید ؒ۔ شاہ لطیفؒ۔ رحمن باباؒ ۔ مست تو کلیؒ کے میٹھے بول ہمارے ذہنوں نے کیوں قبول نہیں کئے؟