ابن ِرشد کا جواب

June 13, 2021

تہافتہ الفلاسفہ میں امام غزالی نے فتویٰ دیا تھا کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ عالم قدیم ہے ، خدا کو جزئیات کا علم نہیں اور حشر کے روز معاملہ اجسام سے نہیں ارواح سے پیش آئے گا(حشر اجساد کا مسئلہ) ، وہ تکفیر کا مرتکب ہوگا۔ ابن رشد نے جب تہافتہ الفلاسفہ کا جواب لکھنے کا بیڑا اٹھا یا تو اُن کے پیش نظر نہ صرف امام غزالی کی علمی وجاہت تھی بلکہ یہ فتویٰ بھی تھا۔ لیکن ابن رشد نے یہ کام بلا خوف و خطر انجام دیا اور امام غزالی کے بیس نکات کا ترتیب وار جواب دے کر یہ ’ثابت ‘کیا کہ امام کا یوں کسی پر تکفیر کا الزام لگانا خود اُن کی تعلیمات کے خلاف ہے جن کے بارے میں انہوں نے اپنی کتاب ’فیصل التفرقۃ‘ میں وضاحت کی ہے کہ ُ اس شخص پر کفر کا اطلاق نہیں ہو سکتا جو وجود کی پانچ سطحوں میں سے کسی ایک سطح کی صداقت کا اقرار کر لے ۔امام غزالی کی کتاب کا رد کرتے وقت ابن رشد کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ جس انداز میں غزالی نے فلاسفہ کی تحقیر کی ہے اور کسی ایک فلسفی کے افکار کو تمام فلاسفہ پر منطبق کرکے شتابی چھلانگ لگاتے ہوئے علم فلسفہ کو ہی باطل قرار دیا ہے وہ کسی طور سے قابل قبول نہیں ۔غزالی نے زیادہ تر ابن سینا کے افکار میں کمزوریاں تلاش کرکے اُن پر تابڑ توڑ حملے کیے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی یہ تمام فلاسفہ کے افکار ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم ہیں لہٰذا اِس باطل علم کے ذریعے علوم شریعہ کی تشریح ممکن نہیں ۔ ابن رشد نے جواب میں قرانی استدلال سے کام لیا اور قران کی متعدد آیات پیش کیں جن میں خدا نے فکر و تدبر کرنے کی دعوت دی ہے اور یوں علم فلسفہ کو عین خدا کی تعلیمات کے مطابق قرار دیا ۔

ابن رشد کہتے ہیں کہ آفاقی اور حتمی سچائی قران میں ہے ،ہم اپنی عقل کی بنیاد پر جو علوم حاصل کرتے ہیں وہ قران سے متصادم نہیں ہو سکتے ۔ بظاہر اگر کوئی بات ایسی ہو جو قران سے متصادم لگے تو وہ محض ظاہری ہوگی ، ایسی صورت میں ہمیں قرانی آیات کو استعارے کے طور پر لے کر اُن کی تشریح کرنی چاہیے ،اور یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کیونکہ خدا نے ظاہری اور باطنی معانی کی حامل آیات کو ملا کر اپنا کلام نازل کیا ہے تاکہ پڑھنے والے اس پر غور کریں ۔ یہاں ابن رشد ایک اور دلیل بھی دیتے ہیں کہ اگر کسی قرانی آیت کے معنی کے بارے میں اجماع امت ہو جائے پھر اُس کی کسی مزید تشریح کی نہ گنجائش ہے اور نہ اجازت لیکن جہاں یہ اجماع امت نہ ہوا ہو وہاں آیات کے معنی کی تشریح کی اجازت ہے۔چونکہ ایسی آیات کی تعداد کم ہے جن پر امت نے اتفاق کر لیا ہو سو لا محالہ باقی آیات کے مطالب و معانی پر بحث کی گنجائش موجود رہے گی ۔اِس نکتے کو بنیاد بنا کر ابن رشد کہتے ہیں کہ امام غزالی اُن تینوں نکات پر فتویٰ صادر کرنے میں غلط ہیں کیونکہ ان تینوں مسائل پر تا حال مسلمانوں کی بحث جاری ہے ۔(تاریخ فلسفہ از اے سی گریلنگ)۔یہاں ابن رشد نے اپنے موقف کی حمایت میں غالباً سورہ آل عمران کی آیت نمبر 7 سے مدد لی ہے جس میں خدا نے فرمایا ہے کہ ’اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں : ایک محکمات ، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسرے متشابہات ۔‘‘

عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ ابن رشد نے اپنا مقدمہ خالص عقلی بنیادوں پر کھڑا کیا جو کہ درست بات ہے مگر ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ابن رشد نے اپنے استدلال کی عمارت اُن آیتوں پر کھڑی کی جو علم و فلسفہ اور عقل و شعور کے وظیفہ کا حکم دیتی ہیں۔یہاں ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اگر امام غزالی نے بیس میں سے تین نکات پر ہی فلاسفہ کی تکفیر کرنا تھی تو باقی سترہ نکات کی کیا ضرورت تھی ؟لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود ابن رشد کے مطابق دین کی بنیاد تین باتو ں پر ہے، وجود باری تعالی ٰ ، رسالت اور یوم حشر ۔رسالت کا براہ راست تعلق چونکہ وحی سے ہےلہٰذا اِس علاقے میں فلسفہ اور مذہب ساتھ نہیں چل سکتے تاوقتیکہ عقل و وحی میں باہم کوئی تضاد نہ ہو۔یہاں ابن رشد کہتے ہیں کہ جو شخص ان میں سے کسی ایک اصول کا بھی انکار کرے وہ تکفیر کا مرتکب مانا جائے۔اِس نکتے پر ابن رشد اور امام غزالی میں کوئی خاص اختلاف دکھائی نہیں دیتا ما سوائے اِس بات کے کہ دونوں حکما بعض فلسفیانہ معموں پر اپنی علیحدہ رائے رکھتے تھے ۔ ابن رشد کا تو اِس ضمن میں یہ بھی ماننا تھا کہ دقیق فلسفیانہ مسائل کی مبہم تشریح عوام الناس کی گمراہی کا سبب بن سکتی ہے لہٰذا اِس سے اجتناب برتنا چاہیے ۔مگردلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو اِن مباحث سے نہیں بچا پائے اور تہا فتہ التہافتہ لکھ ماری۔

امام غزالی اور ابن رشد کے درمیان بحث کا ایک بنیادی نقطہ علت و معلول کے قانون سے متعلق تھا ۔ امام غزالی کا کہنا تھا کہ خدا cause and effect جیسے کسی قانون کا پابند نہیں ، یہ محض اُس کی ’عادت جاریہ ‘ ہے جس میں وہ اپنی مرضی سے تبدیلی بھی کر سکتا (کرتا ) ہے اور یہی معجزات کا سبب ہے ۔ابن رشد کا جواب اِس ضمن میں یہ ہے کہ ’’علم کی غرض کیا ہے ؟ صرف یہی کہ موجودات کے اسباب دریافت کرنا لیکن جب اسباب ہی کا سرے سے انکار کردیا گیا تو اب باقی کیا رہا ! علم منطق کے مطابق ہر مسبّب کا ایک سبب ہوتا ہے تو اب اگر علل و اسباب کا انکار کر دیا جائے تواس کا نتیجہ یا تو یہ ہوگا کہ کوئی شے معلوم نہ رہے گی یا یہ کہ کوئی معلوم قطعی نہ رہے گا بلکہ تمام معلومات ظنی ہو جائیں گے تو گویا ’علم قطعی ‘دنیا سے معدوم ہو جائے گا۔‘‘ (تہافتہ التہافتہ)۔

فلسفیوں کے نظریات اِس قدر پُر پیچ ہوتے ہیں کہ بندہ اُن سے اختلاف تو درکنار اتفاق بھی کرلے تو سوچتا رہ جاتا ہے کہ کہیں میں غلط تو نہیں سمجھا تھا۔یہ کالم لکھتے وقت کچھ ایسا ہی حال میرا بھی تھا سو اِن دو حکما کے افکار کی تعبیر میں اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو بندہ پیشگی معذرت چاہتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)