قاتل ٹرین اور مظلوم مسافر

June 13, 2021

7جون کی شام ملت ایکسپریس کراچی سے سرگودھا جانے کے لئے پوری طرح تیار تھی۔ اس ریل گاڑی میں چھ سو افراد سوار تھے ، ان کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک قاتل ٹرین میں بیٹھے ہیں جو اب سے کچھ گھنٹوں بعد انھیں اس دنیا کو چھوڑنے پر مجبور کردے گی ، ان مظلوم افراد میں سے کوئی چھٹی پر اپنے گھر جارہا تھاتو کوئی شادی کرکے کراچی سےجارہا تھا ،کوئی کاروباری مقصد کے لئے جارہا تھا تو کوئی سرکاری ملازمت جوائن کرنے کے لئے سرگودھا جارہا تھا ، لیکن پھر جیسے ہی رات ساڑھے تین بجے ملت ایکسپریس ڈھرکی کے قریب پہنچی تو مسافروں نے محسوس کیا کہ ٹرین کی بوگیاں بہت زیادہ ہل رہی ہیں لیکن رات کے ساڑھے تین بجے سب اسے ایک وہم ہی سمجھے لیکن پھر جو ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔ریلوے کی پٹریاں بوسیدہ ہوکر اپنی جگہ چھوڑچکی تھیں اور ملت ایکسپریس کی بوگیاں ریلوے ٹریک سے نکل کر زمین بوس ہوچکی تھیں ، بیسیوں افراد خاک و خون میں نہا چکے تھے ، قیامت صغریٰ کا منظر تھا ،ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا ،مجموعی طور پر ستر افراد اس حادثے میں لقمہ اجل بن چکے تھے جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد زخموں کی شدت میں مدد کے لئے پکار رہے تھے ،مقامی لوگ اور حادثے سے محفوظ رہ جانے والے خوش نصیب افراد ہلاک و زخمی ہونے والے مظلوم افراد کو بوگیوں سے نکالنے میں مصروف تھے ، لیکن اس حادثے سے منسلک بعض ایسے افراد بھی تھے جو اس درد ناک صورتحال سے یکسرلاعلم تھے ، ان سے جب مہذب دنیا کی مثال دے کر پوچھا گیا کہ جب ترقی یافتہ ممالک میں ایسا کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو سب سے پہلے وزیر اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتا ہے ،آپ کب مستعفی ہورہے ہیں توان کا جواب آیا کہ اگر میرے مستعفی ہونے سے مرنے والوں کی جانیں واپس آجائیں تو میں استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہوں ، یہ فیصلہ تو عوام کوکرنا ہے کہ ان کا یہ جواب عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے برابر ہے یا نمک جھڑکنے کے؟ اسی طرح کا ایک جواب عدالت میں قاتل نے بھی جج کو مخاطب کرتے ہوئے دیا تھا کہ اگر مجھے پھانسی چڑھا کر مقتول واپس آسکتا ہے تو مجھے پھانسی چڑھادیں ورنہ مجھے چھوڑ دیں ، بہرحال پاکستان جیسے ملک میں سیاسی اشرافیہ سے اسی طرح کے جواب کی توقع کی جاسکتی ہے ، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے کبھی ریلوے کی بہتری پر خلوص نیت سے توجہ ہی نہیں دی ، پوری دنیا میں ریلوے کو عوامی اور معاشی ترقی کا اہم ترین ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن چوہتر برس قبل جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے اس وقت پاکستان کے پاس انگریزوں کی جانب سے قائم کیا جانیوالاریلوے کا 7791کلومیٹر کا ٹریک تھا جو طورخم سے کراچی تک پھیلا ہوا تھا ، جبکہ آج آزادی کے چوہتر برس بعد بھی پاکستان ریلوے کے پاس 11881کلومیٹر کا ٹریک ہے یعنی چوہتر برسوں میں ہم نے برطانوی ریلوے ٹریک میں صرف 4090 کلومیٹر اضافہ کیا ہے ، ریلوے کو نظر انداز کرنے کےثبوت کے لئے صرف یہ اعداد وشمار ہی کافی نہیں ہیں بلکہ ماضی میں ریلوے کا وزیر ایسے شخص کو بنایا گیا جو خود بسوں اور ٹرکوں کو بطور مسافر سواری اور مال کی ڈلیوری کرنے والا سب سے بڑا کاروباری شخص تھا ،اس نے منصوبہ بندی سے ریلوے کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ، پھر بیس سال سے جاپان کراچی میں سرکلر ریلوے کا منصوبہ لئے حکومتی اداروں کے پیچھے پیچھے گھوم رہا تھا لیکن جاپان کو انکار کرکے اس کا بنایا ہوا منصوبہ ،نقشے اور فزیبلٹی رپورٹ کسی اور کے حوالے کردی گئی جس کے بعد اس نے بھی یہ منصوبہ مکمل کرنے سے انکار کردیا اور جاپان نے بھی ، جس سے کراچی کے عوام بلکتے رہ گئے لیکن کسی سیاسی لیڈر کے کان پر جوں تک نہ رینگی ، اس وقت جاپان میںدنیا کا بہترین ریلوے نظام قائم ہے ،رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے آدھا ملک ہونے کے باوجود جاپان میں اس وقت 19122 کلومیٹر کی جدید ترین ریلوے لائن موجود ہے ،اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں ریلوے نظام کی مکمل اوورہالنگ کی جائے اور ریلوے کو پاکستانی عوام کےلئےسستا اور محفوظ ترین سفری ذریعہ بنایا جائے ،ورنہ مظلوم عوام اسی طرح اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے رہیں گے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)